طاقتور ترین کائناتی شعاعوں کا راز فاش ہوگیا!
ہماری
زمین ہر وقت زبردست توانائی کے حامل،باردات ذرات(مثلا پروٹنز)کی بوچھاڑوں کی زد
میں رہتی ہے جنہیں"کائناتی
شعاعیں"(کومک ریز)کہا جاتا ہے۔ان میں نسبتاکم اور اوسط توانائیوں والی
کائناتی اشعاع کی وجہ تو ہمیں معلوم ہے:یہ ہمارے سورج،دوسرے ستاروں اور سپرنووا کی
با قیات سے پیدا ہوتی ہیں۔مگر کائناتی شعاعوں کی سب سے توانا اور طاقتور قسم کے منبع کا معاملہ ہمارے
لیے ایک اسرار ہی تھا۔اب تک ہم نہیں جانتے تھے کہ بلند ترین تونائی رکھنے والی یہ
کائناتی شعاعیں آخر کہاں سےآتی ہیں۔
(ان
کائناتی شعاعوں کے صرف ایک فوٹون میں بھی اتنی توانائی ہوسکتی ہے کہ جس سے ٹینس کی
گیند کو 100 کلو میڑ فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت دی جاسکے!)
لیکن
اب ماہرین فلکیات کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے اچھوتے کھوجیوں کے ایک وسیع و عریض
جال کی مدد سے یہ معما حل کرلیا۔ان سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ یہ بلند ترین
توانائیوں والی کائناتی شعاعیں ایسے بلیک ہولز سے پیدا ہوتی ہیں جن کی کمیت ہمارے
سورج سے بھی اربوں کھربوں گنا زیادہ ہوتی ہے۔چونکہ ایسے بلیک ہولز،کہکشاں کے
مرکزوں میں واقع ہوتے ہیں،لہذاانہیں"سرگرم کہکشانی مرکزے"(ایکٹیوگیلکٹک
نیو کلیائی)یا مختصرا"اےجی این"(AGN) کہا
جاتا
ہے۔
انگریزی املا کی غلطیاں پکڑنے والا قلم
مذکورہ
منصوبہ،جسے بطور خاص طاقتور کائناتی شعاعوں کی نشاندہی اور شناخت کے لیے وضع کیا
گیا ہے،2004میں"پیئری آگرآبزرویڑی"کے عنوان سے ارجنٹائن میں شروع کیا
گیا تھا۔اسے کائناتی شعاعوں پر تحقیق کا سب سے بڑا مین الاقوامی منصوبہ بھی قرار
دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے لگ بھگ 370سائنسداں وابستہ ہیں۔
اس
منصوبے کے تحت تقریبا 1600زمینی کھوجیوں پر مشتمل ایک نیٹ ورک قائم کیا گیا ہےجو3000مربع
میڑ پر رقبے پر محیط ہے۔یعنی یہ رقبہ فرانس کے شہر پیرس سے بھی دس گنازیادہ ہے۔
جب
طاقتور کائناتی شعاعیں،بالائی کرہ ہوائی سے ٹکراتی ہیں تو اس تصادم کے نتیجے میں
ثانوی ذرات (سیکنڈری پارٹیکلز)کی بہت بڑی تعداد ہوتی ہے،جو ایک بوچھاڑ کی شکل میں
سطح زمین کی طرف بڑھتی ہے۔تاہم،پلک جھپکتے میں مکمل ہوجانے والے اس سفر کے دوران
یہ ثانوی ذرات شاخ درشاخ ہوکر پھیلتے بھی چلے جاتے ہیں۔۔۔۔اور جب یہ زمین تک
پہنچتے ہیں تو 40 مربع کلو میڑ وسیع رقبے تک پھیل چکے ہوتے ہیں۔
پیئری
آگرصدر کے نیٹ ورک میں شامل کھوجیوں کو اسی لئے تیار کیاگیا ہے کہ وہ ان ثانوی
ذرات کا سراغ لگا سکیں ۔یہ ذرات جب پانی
کی سطح سے ٹکراتے ہیں تو وہاں موجود آبی سالمات کی طبیعی خصوصیات میں کچھ ایسی
تبدیلیاں لاتے ہیں جو نہ صرف قابل شناخت ہوتی ہیں،بلکہ انہیں بنیاد بناتے ہوئے
متعلقہ کائناتی شعاعوں کی شدت،توانائی اور سمت کا درست تخمینہ بھی لگایا جاسکتا
ہے۔اسی بنا پر مذکورہ کھوجیوں(ڈٹیکڑز)میں سے ہر ایک،پانی سے بھری ہوئی ٹنکی پر
مشتمل بنایا گیا ہے جس کے ساتھ کچھ حساس مشاہدی
آلات بھی اضافی طور پر نصب کئے گئے
ہیں۔علاوہ ازیں،اس نیٹ ورک کے اطراف میں 24 بصری دوربینیں بھی لگائی گئی ہیں تاکہ
ان ثانوی ذرات سے کرہ ہوئی میں پیدا ہو نے والی روشنی کا مشاہدہ بھی کیا جاسکے۔
۔۔۔۔۔نایاب
ہیں ہم
انتہائی
بلند توا نائی والی کائناتی شعاعیں 1962میں دریافت ہوئیں،مگر ان کے ذرات میں اتنی
زیادہ تونائی تھی کہ اس زمانے کی جدید ترین فلکیات طبیعیات کا کوئی نظریہ بھی ان کی
وضاحت کرنے سے قاصر تھا۔ ماہرین تب ہی سے یہ جاننے پر کمر بستہ ہو گئے کہ آخر
انتہائی بلند توانائی کی حامل کائناتی شعاعیں کیونکر پیداہوتی ہیں۔ یہی جستجو
پئیری آگر صدر گاہ اور اس جیسے دوسرے منصوبوں کا باعث بھی بنی۔ یہ کائناتی شعاعیں اس قدر نایاب ہیں
کہ ہر 100سال میں ایک مربع کلومیڑ زمین سے
بمشکل ان کا ایک ذرہ ہی ٹکراتا ہے۔پئیری آگر رصدر گاہ کی ٹیم بھی ہر ماہ ایسے صرف
دو ذرات ہی شناخت کر پاتی ہے۔
دریں
اشنا،انتہائی بلند توانائی والی کائناتی شعاعوں کے ذرات کی یہ خاصیت بھی سامنے آئی
کہ کسی کہکشاں کا طاقتور مقناطیسی میدان بھی ان کے ابتدائی راستے کچھ زیادہ تبدیلی
نہیں لا سکتا۔
یعنی
اگر ہم کسی طرح ان ذرات میں حرکت کی سمت
معلوم کرنے میں کامیاب ہوجائیں،تو پھر یہ پتا چلانا بھی آسان ہو جائے گا کہ وہ
کہاں سے آرہے ہیں۔البتہ یہ معلوم کرنا ابھی باقی تھا کہ ان ذرات کے راستے میں کس
حد تک انحراف واقع ہوسکتا ہے۔
پئیری
آگر صدر گاہ کی تحقیق ٹیم نی جنوری 2004 سے مئی 2006 تک مشاہدے میں آنے والی
کائناتی شعاعوں کا جائزہ لیا اور ان میں سے 27 ایسے مشاہدات الگ کر لئے جو بلند
ترین تونائی والی کائناتی شعاعوں کی طرف اشارہ کررہے تھے۔تاہم،سال(اگست 2007)تک
کائناتی شعاعوں کے مشاہدات کرتے،اور ڈیٹا جمع کرتے رہے۔اس طرح ان کے پاس مذکورہ
ڈیٹا کے دو سیٹ بن گئے۔
جب
ڈیٹا کے ان دونوں مجموعوں کا آپس میں موازنہ کیا گیا،تو یہ بات قریب قریب یقینی
نظر آئی کہ بلند ترین توانائی والی کائناتی شعاعیں ان سر گرم کہکشانی مرکزوں سے
آرہی ہیں جو زمین سے تقریبا 25 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع ہیں۔علاوہ
ازیں،محتاط تخمینہ جات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان کائناتی شعاعوں میں زیادہ سے
زیادہ انحراف کی شرح 3.1 درجہ ہوسکتی ہے۔
ثبوت
یا شہادت؟
اگرچہ
پیئری آگر رصدگاہ کے ماہرین نے پوری طرح سے چھان پھٹک کے بعد ہی اپنے نتائج کا
اعلان کیا ہے، لیکن بعض دوسرے ماہرین کو نیات اس توجیح سے مطمئن نہیں۔ مثلاً رٹگرز
یونیورسٹی، نیویارک کے ماہرین فلکیات گورڈن تھامسن نے ان نتائج کو اے جی این اور
انتہائی بلند توانائی والی کائناتی شعاعوں کے مابین تعلق کی ایک شہادت کے طور پر ،
تو تسلیم کیا ہے، لیکن وہ اسے"حتمی ثبوت" نہیں سمجھتے۔تھامسن کا
تعلق"ہائی ریزولیوشن فلائیز آئی کو لیبوریشن"(HiRes)نامی ایک اور
مشترکہ تحقیق منصوبے سے ہے، جوامریکہ کی یونیورسٹی آف یوٹاہ کی سر کردگی میں جاری
ہے۔اس کے تحت بھی وہی سب کچھ کیا جارہا ہے جو پئیری آگررصدگاہ میں کیا گیا ہے،
البتہ اس کا پیمانہ خاصا مختصر ہے۔ ہائیریز جائزہ مکمل کرلیا ہے،اور اسے ایک
تحقیقی جریدے میں اشاعت کیلئے ارسال مکمل کرلیا ہے،اور اسے ایک تحقیقی جریدے میں
اشاعت کیلئے ارسال بھی کردیا ہے۔تاہم،جب تک یہ مقالہ شائع نہیں ہوجاتا ، تب تک
تھامسن اس بارے کچھ نہیں بتاسکتے۔
انٹرنیٹ کے ذریعے تعلیمی انقلاب
ادھر جاپان میں"آکینو جائنٹ ایئر شاورایرے"نامی منصوبے سے وابستہ،شگیرویوشیدا نے بھی تھامسن کی رائے سے اتفاق کیا ہے"یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ ہائیریز کا تجزیہ اس دریافت کی تصدیق کرتا ہے یا نہیں،"انہوں نے کہا۔اور اگر یہ بات درست ثابت ہوئی تو پھرفلکی مشاہدات کی ایک بالکل نئی نسل وجود میں آجائے گی،جو بطور خاص بلند توانائی والی کائناتی شعاعوں سے بحث کرے گی،جو بطور خاص بلند توانائی والی کائناتی شعاعوں سے بحث کرے گی بحوالہ سائنس(جلد318،صفحہ938)