Interesting Story of the Journey to Pluto


پلوٹو تک پہنچنے کی امید کئی بار بندھی اور کئی بار ڈگمگائی۔۔۔ کیا وجہ تھی کہ سائنس دانوں کا خواب چکنا چور ہوتا دکھائی دیا؟
نیوہورائزن کیا تھا اور کیا اس کے بغیر پلوٹو تک پہنچنا ممکن تھا۔۔۔؟
پلوٹو مشن کو کیا نام دیا گیا۔۔۔؟
مشن کا رُخ سیارہ مشتری کی جانب کردیا گیا کیا پلوٹو پھر سے اجنبی ہوگیا تھا۔۔۔؟
وہ دن جب پلوٹو سمیت دیگر سیاروں کو کثرت رائے شماری سے بونے سیارے کا نام دیا گیا۔۔۔آخر کیوں۔۔۔؟
جب مشن پر خلائی کھوجی کو ہائبرنیٹ کردیا گیا ۔۔۔ کیاخلامیں ہائبرنیٹ کرنے سے مشن رک گیا یا۔۔۔
وہ دن جب پلوٹو مشن کے اہم سائنسدان انتقال کرگئے کیا مشن جاری رکھا گیا ۔۔۔؟
جب پلوٹو مشن کا خلائی کھوجی کسی بھی لمحے کسی خلائی جسم سے ٹکرانے پر تباہ ہونے کی کیفیت میں آگیا۔۔۔
کیا خلائی کھوجی کسی خلائی جسم سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا یا پلوٹو تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔۔۔؟
ان سب سوالوں کے جواب جانیئے درج ذیل تہلکہ خیز تحریر میں
لمحہ با لمحہ بدلتے حالات اور خلا میں پیش آنے والے بہت سے خطرات
فلکیات کے اور خلاء کے شائقین کے لئے زبردست تحفہ




نظام شمسی کے آخری سیارے کو بھی چھو لیا۔ جی ہاں قارئین ! جولائی 2015ء فلکیات کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت اختیار کرگیا، جب ایک خلائی جہاز نے نظام شمسی میں اپنا طویل ترین سفر مکمل کیا۔ ہمیں نیوہورائزن کا شکرگزار ہونا چاہیئے کہ اتنے طویل انتظار کے بعد ہمیں پلوٹو کی واضح تصویر دیکھنا نصیب ہوئی۔ یہ سفر اتنا طویل تھا کہ اگر ہم اس بارے میں لکھنا شروع کردیں تو ایک کتاب بن جائے گی۔
خیر! ہم کوشش کریں گے کہ زیر نظر تحریر میں نیوہورائزن کے زمین سے پلوٹو تک سفر کا مختصرا حال بیان کرتے چلیں۔ تو پھر چلئے ، پہلے پلوٹو کے بارے میں کچھ بات کرلیتے ہیں۔






1930ء میں نظام شمسی کے نویں اور آخری سیارے پلوٹو کی دریافت کا سہرا "کلائیڈٹومباہ" (Clyde Tombaugh) کے سر بندھا۔ 1980ء کی دہائی میں خلائی جہاز "وائیجراول" کو سیارہ زحل (سیٹرن) کے قریب سے گزرنا تھا۔ اکثر افراد کا خیال تھا کہ اس کے بعد یہ خلائی کھوجی سیارہ پلوٹو کے پاس سے بھی گزرے گا تاہم اس وقت کے سائنسدانوں کے لئے سیارہ زحل کا سب سے بڑا چاند "ٹائٹن" (Titan) زیادہ اہم تھا۔ لہذا وائیجر اول کا سفر ٹائیٹن کی سمت جاری رکھا گیا۔ اس کے بعد وائیجر اول کا پلوٹو کی جانب بڑھنا ناممکن تھا۔ اس دور میں پلوٹو کی جانب کسی خلائی مشن کو بھیجنے کا کوئی ارادہ بھی نہ تھا۔ لیکن اگست 1989ء میں وائیجر دوم، سیارہ نیپچون کے نزدیک سے گزرا تو نیپچون کا سب سے بڑا چاند "ٹرائیٹن" (Triton) دریافت ہوا۔



نیپچون کے چاند کی دریافت کے بعد اب سائنسدانوں کی اگلی منزل پلوٹو اور کیوپربیلٹ میں موجود اجسام کے بارے میں جاننا تھا اس وقت کوئی مشن تو نہ بھیجا جاسکا لیکن اس کی تیاریاں زورشور سے شروع کردی گئیں۔ یہیں سے پلوٹو کی جانب طویل ترین سفر کا آغاز بھی ہوا۔ آئیے اب ہم پلوٹو کی جانب سفر کا مزہ لیتے ہیں۔
22 ستمبر 2001ء: یہ دن فلکیات دانوں کے لئے خاصا مایوس کن ثابت ہوا جب انہیں معلوم ہوا کہ پلوٹو/کیوپرایکسپریس کا مشن اب کبھی انجام کو نہیں پہنچ سکے گا۔ یہ منصوبہ 1996ء میں بنایا گیا تھا ۔مشن کی منسوخی اس کی انتہائی زیادہ لاگت کی وجہ سے ہوئی ۔ یوں سائنسدانوں کے پلوٹو تک پہنچنے کا خواب چکنا چور ہوتا محسوس ہونے لگا۔
23 جولائی 2003ء : پلوٹو تک پہنچنے کی امید پھر سے جاگ اٹھی، جب ناسا نے "نیوہورائزن" نامی منصوبے کی منظوری دی۔ اب صرف اس کے لانچر کے انتخاب کا مرحلہ باقی تھا۔ پھر اس کا بھی فیصلہ ہوگیا اور لاک ہیڈکااٹلس پنجم کا انتخاب کرلیا گیا۔ وائیجر کھوجی میں بھی اسی لانچر کو آزمایا جاچکا تھا۔
یکم اگست 2004ء : اس کھوجی (نیوہورائزن) کو سفر پر بھیجنے سے پہلے تحقیق کے لئے مختلف آلات نصب کئے گئے جن کا مقصد پلوٹو کے گرد شمسی ہوا ناپنا تھا۔ علاوہ ازیں اس میں ایسے کیمرے بھی نصب تھے جو مختلف روشنیوں میں تصاویر کھینچ سکیں جبکہ ان میں بالائے بنفشی طیف پیما( الٹراوائیلٹ اسپیکٹر و میٹر) بھی شامل تھے۔






5 جنوری 2005ء : اس ماہ ایسا لگنے لگا کہ پلوٹو کا مشن اب پھر خواب بن کر رہ جائے گا کیونکہ سائنس دان اب پلوٹو کے پڑوسیوں پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتے تھے۔ اس کا ذمہ دار "ایرس" (Eris) ایک بونا سیارہ تھا۔ جسے مائیک براؤن اور ان کی ٹیم نے دریافت کیا تھا۔ پلوٹو کے بعد کیوپر بیلٹ میں ان اجسام کی دریافت نے کئی سوالات جنم دیئے تھے جن میں سے سب سے اہم سوال یہ تھا کہ کیا ان تازہ دریافتوں کو بھی سیاروں کا درجہ دیا جائے گا؟ یہی وجہ ہے کہ انہیں"بونے سیاروں" کا نام دیا گیا۔
26 ستمبر 2005ء : اس روز ایک خلائی کھوجی کینیڈی اسپیس سینٹر تک پہنچایا گیا، جہاں اس کی کئی آزمائشیں کی گئیں۔ ان کا مقصد یہ اطمینان کرنا تھا کہ یہ طویل خلائی سفر کرسکتا بھی یا نہیں۔
19 اکتوبر 2005ء : یہ وہ دن تھا جب نیوہورائزن مشن کو ضروری سازو سامان سے لیس کیا گیا یعنی اب اسے لانچ کرنے کا وقت آگیا تھا۔
31 اکتوبر 2005ء: یہ نکس (Nix) اور ہائیڈرا (Hydra) کی دریافت کا دن تھا جو پلوٹو کے چاند تھے ۔جن کا ہبل خلائی دوربین سے مشاہدہ کیا گیا۔ واضح رہے کہ ہبل خلائی دور بین بہت ہی طاقتور دوربین ہے۔ لیکن پھر بھی ہبل کے ذریعے پلوٹو صرف ایک روشنی کا نقطہ ہی دکھائی دیتا ہے ۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ آخر سائنس دان نیوہورائزن کو اتنی اہمیت کیوں دے رہے تھے۔






19 جنوری 2006ء : ویسے تو نیوہورائزن کو ایک دن پہلے 18 کو لانچ کیا جانا تھا تاہم اگلے روز نیوہورائزن کو پلوٹو کی جانب روانہ کردیا گیا۔ ابتداء میں اس کا رُخ سیارہ مشتری کی جانب رکھا گیا جہاں اس نے مشتری کی کشش ثقل استعمال کرتے ہوئے اپنی رفتار 36،000 میل فی گھنٹہ تک لے جانا تھی ۔ یہ اب تک کی سب سے تیز ترین رفتار تھی۔
24 اگست 2006ء : اب فلکیات دانوں کے لئے ایک مشکل آن پڑی انہیں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کیوپربیلٹ میں موجود تمام اجسام کو سیاروں کا درجہ دیا جائے اور انہیں نطام شمسی میں موجود سیاروں کی فہرست میں شامل کیا جائے یا نہیں۔ تاہم انٹرنیشنل ایسٹرونومیکل یونین نے رائے شماری کے بعد پلوٹو سمیت ایرس، میکمیک اور ہومیا سمیت دیگر اجسام کو "بونے سیاروں" کا نام دے دیا گیا۔ تاہم اتنے عرصے سے پلوٹو جسے ہم نظام شمسی کا نواں سیارہ سمجھتے آئے ہیں اسے بونے سیاروں میں شامل کرنا اتنا آسان نہ تھا۔



یکم ستمبر 2006ء : یہ نیو ہورائزن کے امتحان کا دن تھا جس میں ایم سیون ستاروں کے جھنڈ کی تصاویر لی گئیں۔
4 ستمبر 2006ء : نیوہورائزن مشتری کے قریب پہنچا اس کے بعد اس نے مشتری کی بھی کچھ تصاویر بنائیں۔لیکن یہ اتنا قریب نہیں تھا بلکہ اس وقت اس کا مشتری سے فاصلہ تقریبا 181 ملین میل تھا۔
11 نومبر 2006ء : نیوہورائزن سے لی گئی تصویر میں خلائی اجسام کی ایک انتہائی چھوٹی سی دنیا سامنے آئی جس میں پلوٹو ایک معمولی سا نقطہ دکھائی دیا۔
10 جنوری تا 28 فروی 2007ء : آخر کار نیوہورائزن، مشتری کے نظام میں داخل ہوہی گیا اور مشتری کی شاندار تصاویر کھینچیں۔ اس کے بعد نیو ہورائزن، مشتری اور اس کے چاندوں کی کشش ثقل کا سہارا لیتے ہوئے آگے بڑھنے لگا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مشتری کے چاند بھی پلوٹو کی جسامت سے کئی گنا بڑے ہیں۔
8 جون 2008ء : 27 سال میں نیوہورائزن وہ پہلا کھوجی تھا جو زحل کے قریب سے گزرا۔ البتہ ابھی یہ کھوجی زحل کے حلقوں سے اتنا دور تھا کہ اس کا مشاہدہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔
12 مارچ 2009ء : فی الحال یہ یورنیس سے دور تھا پھر بھی نیپچون اور اس کا چاند ٹرائٹن دکھائی دے رہا ہے اس کے بعد یہ امید بندھی کہ جلد ہی کیوپر بیلٹ میں موجود اجسام بھی دیکھے جاسکیں گے۔
29 دسمبر 2009ء : نیوہورائزن اب اپنے گھر (زمین) سے تقریبا 1.527 بلین میل (ایک ارب، باون کروڑ اور سترلاکھ میل ) دور جاچکا تھا یوں اب یہ زمین کے مقابلے پلوٹو کے زیادہ نزدیک تھا۔
18 مارچ 2011ء : نیوہورائزن یورنیس کے مدار سے نکل گیا اور اب اس کا زمین سے فاصلہ 1.8 ارب میل ہوچکا تھا۔ یہ کھوجی ہائبرنیشن موڈ میں تھاتاکہ اس کی توانائی کو بچایا جاسکے۔
30 مئی 2001ء : ڈیوڈ چارلس سلیٹرانتقال کرگئے یہ نیوہورائزن مشن کے اہم سائنسدانوں میں سے ایک تھے۔
20 جولائی 2011ء : چاند، چاند اور چاند ۔۔۔ اس روز ایسا لگ رہا تھا کہ پلوٹو انسانوں کو بتانے کی کوشش کررہا ہے کہ میں بونا نہیں۔ یہ دیکھومیرے پاس کتنے چاند ہیں۔ دراصل اس دن پلوٹو کا چوتھا چاند دریافت ہوا جسے "کربوئروس" (Kerboeros) کا نام دیا گیا۔ یہ انتہائی چھوٹا ہے اور اس کا قطر صرف 8 سے 21 میل تھا۔






یکم جون 2012ء : پھرسے نیوہورائزن کا امتحان، سائنسدانوں نے طے کی کہ اب بھی اسے پلوٹو تک پہنچنے میں تین سال کا عرصہ درکار ہے تو کیوں نہ اس کے آلات کا امتحان لے لیا جائے۔ اس وقت بھی یہ پلوٹو سے تقریبا 850 ملین میل دور تھا۔
11 جولائی 2012ء : ہم پلوٹو کے جتنا نزدیک آتے جارہے ہیں اس کے چاندوں کی تعداد میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔لیجئے اس کا پانچواں چاند "اسٹائکس" (Styx) بھی دریافت ہوگیا اس کی جسامت بھی تقریبا کربوئروس جتنی ہی ہے۔ جہاں سائنسدانوں کے لئے نیوہورائزن اہم دریافتیں کررہا تھا ، وہیں دوسری جانب سائنسدانوں کو نیوہورائزن کی فکر بھی بڑھتی جارہی تھی۔ اب وہ پریشان تھے کہ یہ کھوجی پلوٹو تک پہنچ بھی پائے گا یا نہیں۔دراصل پلوٹو کے جتنے چاند اور اس کے قریب جس قدر اجسام دریافت ہورہے تھے ، سائنس دانوں کو ڈر تھا کہ ان ہی میں سے کوئی نیوہورائزن کی تباہی کا سبب نہ بن جائے، کیونکہ کھوجی جتنا پلوٹو کے قریب آئے گا اس کی رفتار بھی اتنی ہی تیز ہوجائے گی۔ اس دوران اگر کوئی معمولی سا کنکر بھی نیوہورائزن سے آٹکرایا تو وہ نیوہورائزن کے آر پار ہوجائے گا۔ یوں سائنسدانوں کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔
21 اکتوبر 2013ء : نیوہورائزن نے ایک صوتی ریکارڈ روانہ کیا۔
یکم جولائی 2014ء : سائنسدانوں کو امید ہوئی کہ جیسے ہی نیوہورائزن پلوٹو کے نظام سے باہر نکلے گا، یہ کیوپر بیلٹ اور اس سے قریب دیگر اجسام کا بھی دورہ کرے گا۔لہذا ہبل نے ان جگہوں کا مشاہدہ شروع کردیا جہاں سے نیوہورائزن کے گزرنے کا امکان تھا۔
10 جولائی 2014ء : نیوہورائزن جیسے ہی نیپچون کے مدار میں داخل ہوا ، اس نے نیپچون اور اس کے چاند ٹرائٹن کی تصاویر بھیجنا شروع کردیں۔
20 جولائی 2014ء : پلوٹو کے ایک چھوٹے چاند "ہائیڈرا" کی متحرک تصاویر منظر عام پر آئیں۔
7 اگست  2014ء : پلوٹو کے قریب آنے سے پہلے نیوہورائزن کو جگایا گیا اور پھر کئی تصاویر حاصل کی گئیں۔ اس طرح سائنسدانوں کو نیوہورائزن کی کارکردگی کا بھی اندازہ ہوگیا۔ یہ تصاویر پلوٹو اور اس کے چاند "چیرون" (Charon) کے اپنے مدار کی تھیں۔
25 اگست 2014ء آخرکار اس کھوجی نے نیپچون کے مدار سے باہر قدم بڑھادیا۔
6 دسمبر 2014ء : اب پلوٹو سے فاصلہ صرف 162 ملین دور رہ گیا تھا۔ نیوہورائزن مکمل طور پر جاگ چکا تھا اور پلوٹو کا سامنا کرنے کو تیار تھا۔ اب کھوجی سے آنے والی ہر خبر زمین پر چار گھنٹے بعد موصول ہورہی تھی۔



31 جنوری 2015ء : پلوٹو اور چیرون کو ایک مشترکہ کرکزِ ثقل کے گرد چکر لگاتے ہوئے قریب سے دیکھا گیا ۔ اس تصویر سے واضح ہوا کہ پلوٹو اور چیرون، کشش ثقل کے معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ کئی سائنسدان تو یہ کہنے لگے کہ پلوٹواور چیرون دراصل دوہرے بونے سیاروں کا نظام ہیں۔
8 فروری 2015ء : پلوٹو اور اس کے تین چاندوں کی پہلی ویڈیو منظر عام پر آئی تاہم اب بھی اس کے دو چاند ، یعنی کربوئروس اور اسٹائکس اتنے فاصلے پر تھے کہ انہیں دیکھا نہیں جاسکتا تھا۔
 18 اپریل 2015ء : آج کے روز نیوہورائزن نے چھ دن کی مسلسل جدوجہد کے بعد پلوٹو کی قطبی برفیلی ٹوپی کی تصاویر دکھائیں۔ تب بھی پلوٹو سے اس کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چھ کروڑ میل تھا۔
10 مارچ 2015ء : بس اب وہ لمحات بھی دور نہیں تھے کہ ہم پلوٹو تک پہنچ سکیں۔ نیوہورائزن کا فاصلہ، پلوٹو سے صرف ایک فلکیاتی اکائی (ایسٹرونومیکل یونٹ) رہ گیا تھا ۔ یہ اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین کا سورج سے ہے۔
14 اپریل 2015ء : اس سے قبل سائنسدانوں نے پلوٹو کی جتنی تصاویر کا مشاہدہ کیا تھا وہ بے رنگ تھیں۔ لیکن آج دنیا کے باسیوں نے پلوٹو اور چیرون کی رنگین تصاویر کا مشاہدہ بھی کرلیا۔البتہ یہ رنگین تصاویر زیادہ واضح نہیں تھیں۔






12 مئی 2015ء : آپ ڈریئے نہیں یہ وہ 12 مئی نہیں جس کی تاریخ کراچی سے وابستہ ہے ۔ خیر! اب ہم پلوٹو کے نزدیک آتے جارہے ہیں۔ پہلی بار پلوٹو اور اس کے تمام چاندوں کی حرکت کرتی ہوئی تصاویر نیوہورائزن سے حاصل ہوئیں۔ تاہم اب بھی ایسے کئی چھوٹے اجسام کی دریافت باقی ہے جو نظروں سے اوجھل ہیں۔
18 مئی 2015ء : اب پلوٹو کی سطح مزید واضح دکھائی دینے لگی۔
10 جولائی 2015ء : پلوٹو اور چیرون کی پہلی ایک ساتھ لی گئی رنگین تصاویر۔ یہ تصاویر پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ قریب سے لی گئی ہیںاور بہت واضح بھی ہیں۔
14 جولائی 2015ء : بارہ گھنٹے کی طویل خاموشی سے قبل، نیوہورائزن نے پلوٹو کی قریب سے لی گئی رنگین تصاویر بھیجیں۔ اس دوران کئی سائنسدان تو یہ سمجھ بیٹھے کہ نیوہورائزن کسی فلکیاتی جسم کی زد میں آکر اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے لیکن پھر نیوہورائزن سے سگنل وصول  ہونا شروع ہوگئے اور انہوں نے سکھ کا سانس لیا۔



15 جولائی 2015ء : نیوہورائزن سے پلوٹو کی انتہائی قریب سے لی گئی تصاویر کا سائنسدانوں نے جائزہ لیا۔ اس میں برفیلے پہاڑوں کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا تھا۔ تاہم حیرت انگیز طور پر اس تصویر میں پلوٹو پر کوئی شہابی گڑھا دکھائی نہیں دیا۔ اسی روز چیرون کی بھی واضح تصاویر حاصل ہوئیں جن میں اس چاند پر واضح گہرا سیاہ دھبہ دیکھا گیا۔ اس دھبے کو سائنسدانوں نے "مورڈور"(Mordor) کا نام دیا۔ اس لفظ کا مطلب "مردار" نہیں بلکہ اس کے معنی سیاہ زمین یا سائے والی زمین کےہیں۔
17 جولائی 2015ء : نیوہورائزن سے حاصل شدہ تصاویر میں پلوٹو میں موجود برفانی میدانوں کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا تھا۔
22 جولائی 2015ء : بالآخر نیوہورائزن نے پلوٹو کے سب سے چھوٹے چاندوں کو دیکھ ہی لیا۔


24 جولائی 2015ء
لیجیئے جناب ! نیوہورائزن نے اپنا سفر مکمل کرلیا اور پلوٹو کو الوداع کہنے کا وقت آگیا۔پلوٹو سے وداع لیتے ہوئے اس نے پلوٹو کے پیچھے سے ایک اور تصویر کھینچی جس میں پلوٹو بالکل سیاہ دیکھائی دے رہا تھا۔اس وقت سورج کی روشنی اس کی سطح سے ٹکرا کر گزر رہی تھی ، لہذا اس کا کرہ ہوئی ہمیں سفید دکھائی دے رہا تھا۔



ناسا نے عوام کو پلوٹو کی واضح سطح دکھانے کے لئے مصنوعی رنگوں (فالز کلرز) پر مشتمل ایک تصویر جاری کی۔



اسی روز ناسا کے ماہرین نے بتایا کہ پلوٹو پر دکھائی دینے والی برف اصل میں منجمد نائٹروجن ہے۔
پلوٹو کے انتہائی مہین کرہ ہوائی کی قریب سے لی گئی تصویر سے اس کے موسم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
گلوبل سائنس اگست 2015ء صفحہ21 تا 25  


ڈیجیٹل کہانی پر شائع ہونے والی ہر کہانی بذریعہ ای میل PDF میں فوری حاصل کریں سبسکرپشن کے لئے ابھی کلک کریں


Post a Comment

0 Comments

ebay paid promotion