🚀 LIMITED-TIME OFFER! 🚀
🔥 "Claim Your Exclusive Bonus Now!" 🔥

👉 CLICK HERE TO UNLOCK YOUR REWARD 👈

The Educational Revolution Through The Internet

انٹر نیٹ کے ذریعے تعلیمی انقلاب

انٹر نیٹ علم کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے اور کسی نے بالکل سچ کہا ہے کہ  امریکہ نے جو سائنسی،علمی ترقی2سال میں کی ہے وہ پاکستان انٹرنیٹ کو بروئے کار لاکر  صرف دس برس میں کرسکتا ہے۔اس تناظر میں اگر ہم اپنے تعلیمی نظام میں انٹرنیٹ کو اہمیت نہیں دیتے تو خدشہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی تعلیمی ترقی کی دوڑ میں ہم دنیا سے پیچھے رہ جائیں گے۔

انٹرنیٹ تعلیمی انقلاب کیسے برپا کرسکتا ہے۔اس سوال کا جواب ڈھونڈنا اس وقت ممکن نہیں،جب تک انٹرنیٹ کی وسعت وامکانات کو نہ سمجھ لیا جائے۔انٹرنیٹ کو  بجا طور پر اکیسویں صدر کا معجزہ کہا جاتا ہے۔دنیا کو پہلے بھی گلوبل ویلیچ کہا جاتا رہا ہے تاہم انٹرنیٹ کے آنے سے یہ اصطلاح واقعتاً حقیقت کا روپ دھار گئی ہے۔


انگریزی املاء  کی غلطیاں پکڑنے والا قلم


انٹر نیٹ نے مواصلاتی رابطے کے ضمن میں انقلاب بپا کیا ہے،تا ہم علم و سائنس کے فروغ میں بھی انٹرینٹ کے انقلابی کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ای میل کے ذریعے پلک جھپکتے میں دنیا کے ہرکونے میں پیغامات،تصاویر اور فائلیں بھیجی جا سکتی ہیں۔اس کے علاوہ انٹرنیٹ فون اور ویڈیو کی سہولت بھی حاصل ہے۔تا ہم یہ سب باتیں انٹرنیٹ کے ایک چھوٹے سے پہلو  کی نمائندگی کرتی ہیں۔انٹرنیٹ کی اصل تعریف یہ ہے کہ وہ علم کا سمندر ہے جس میں تمام انسانی علوم اور دریافتوں کو دریا میں کوزے کے مصداق بند کردیا گیا ہے۔انٹرنیٹ کے ذخیرے میں لاکھوں ایسے ویب سائٹ موجود ہیں جن میں ہر موضوع اور دریافتوں کو دریا میں کوزے کے مصداق بند کردیا گیا ہے۔انٹرنیٹ کے ذخیرے میں لاکھوں ایسے ویب سائٹ موجود ہیں جن میں ہر موضوع پر دنیا بھر میں آج تک ہونے والی تحقیق کو مجتمع کردیا گیا ہے۔ویب کو آپ کسی موضوع کی ڈکشنری بھی کہہ سکتے ہیں اور لائبریری بھی۔بہت سے لوگ یہ سن کر حیران رہ جاتے ہیں کہ دنیا کی تمام بڑی بڑی لائبریریوں کو ان کے تمام تر کتابی ورثے سمیت انٹرنیٹ پر منتقل کردیا گیا ہے اور پاکستان کے دور دراز مقامات پر بیٹھا ہوا شخص بھی جس کے پاس انٹرنیٹ کا کنکشن موجود ہے یہ صرف ان لائبریریوں تک رسائی حاصل کرسکتا ہے بلکہ جس کتاب کوق چاہے پلک جھپکتے میں اپنے کمپیوٹر کی ڈسک میں منتقل کرکے اپنی لائبریری کا حصہ بنا سکتا ہے یہی وہ بات ہے کہ جو اس خیال کو راسخ کرتی ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے صدیوں کا سفر برسوں میں طے کیا جاسکتا ہے۔ملک کے تعلیمی حلقوں میں یہ تاثر موجود ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب وقیانوسی اور ہر لمحہ بدلتی ہوئی تحقیق دنیا سے مماثلت نہیں رکھتا۔خاص طور پر سائنس و ٹیکنالوجی کے  شعبوں میں  ہم  آج کے  ترقی یافتہ ممالک سے نصف صدی پیچھے ہیں۔ہمارے ہاں ایف ایس سی سے لے کر ایم ایس سی تک کی کتب پڑھائی جاتی ہیں ان میں وقت اور تحقیق تبدیلیوں کے حوالے سے ترمیم اضافے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔اسی طرح انجیئنرنگ اور طب کے میدان میں بھی جو تبدیلیاں آرہی ہیں،وہ ہم تک پہنچتے پہنچتے ترقی یافتہ دنیا میں از کار رفتہ ہوچکی ہوتی ہیں۔ایسی خبریں تو اکثر سامنے آتی  ہیں کہ جن ادویات کو مغرب یا امریکہ میں تحقیق کے بعد ردکردیا گیا ہوتا ہے وہ پاکستان میں بھیج دی جاتی ہیں۔انٹرنیٹ سے پہلے ہمارے سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ ہم یورپ اور امریکہ میں ہونے والی تحقیق اور شائع ہونے والی کتابوں کا برسوں تک انتظار کریں۔ایک طرح سے ہمیں اہل مغرب کی اترن  ملتی تھی اور وہ بھی اس وقت جب اس کی افادیت ختم ہوچکی ہوتی تھی۔انٹرنیٹ کی بدولت اب صورت حال باقی نہیں رہی۔دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہئے کہ انٹرنیٹ نے علم کے  میدان میں عالم انسانیت کے لئے اصول مساوات کو تسلیم کرلیا ہے۔اب کوئی بھی ملک انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے علمی ذخیرے کو اپ ڈیٹ کرسکتا ہے جو تحقیق امریکہ کی کسی بڑی یونیورسٹی میں ہورہی ہے،اس سے پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ ہر موضوع پر ماضی  میں کی جانے والی تحقیق کے بارے میں تمام تر مواد بھی انٹرنیٹ کے ذخیرے میں محفوظ کردیا گیا ہے جس سے کوئی  بھی بلا روک ٹوک استفادہ کرسکتا ہے۔امریکہ کی انٹرنیٹ ایسوی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً تین کروڑ کتابیں انٹرنیٹ کے مختلف ویب سائٹ میں  منتقل کردی گئی ہیں یہ بڑی خوش آئندہ بات ہے کہ موجود حکومت انٹرنیٹ کو فروغ دینے کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بڑی اہمیت دے رہی ہے تا ہم ابھی اس ضمن میں کی جانے والی کوششوں کی رفتار  وہ نہیں،جس کا تقاضا ہمارے حالات کرتے  ہیں خاص طور پر انٹر نیٹ کے ذریعے  تعلیمی انقلاب برپا کرنے کی سمت کوئی معرکتہ الآراء پیش رفت سامنے نہیں آرہی ۔حکومت نے جو سرکاری کالجوں میں کمپیوٹر کلاسز شروع کرنے کی منظوری دی  ہے جو میرے نزدیک انتہائی ناکافی ہے۔فوری ضرورت اس بات کی ہے تمام سرکاری اسکولوں سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک کمپیوٹر کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے۔

میٹرک،ایف  ایس سی ،سی بی ایس سی اور ایم ایس سی علاوہ انجینئرنگ اور میڈیکل کے طلبا و طالبات کے لئے انٹرنیٹ  کی تربیت اور استعمال کو لازمی قرار دینا وقت کی ضرورت ہے ۔اگر  کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی تعلیم کو اسکولوں کی سطح پر لازمی قرار دیدیا گیا تو  چند سالوں ہی میں ایسا تعلیمی انقلاب آئے گا۔

ساری دنیا اس بات کی قائل ہوچکی ہے کہ اکیسوں صدی کمپیوٹر کی ہے ہمیں بھی اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے ۔کمپیوٹر بذات خود ایک مفید ایجاد ہے تاہم جب سے کمپیوٹر انٹرنیٹ سے منسلک ہوا ہے اسے بجا طور  پر علوم وفنون کا خزانہ قرار دیا جاتا ہے اب اس کا استعمال قوموں کی برابری میں علمی برتری اور اقتصادی خوشحالی کے لئے نا گریز ہوگیا ہے اس لئے مکھی پر مکھی مارنے کی بجائے ہمیں دنیا کی جدید ایجادات  کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا  چاہیے اور انٹرنیٹ ایک ایسی ایجاد ہے جس  کا قومی  سطح پر دانش مندی اور منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال ہمیں سائنس و ٹیکنالوجی اور علم کے میدان میں ترقی یافتہ ملکوں کے اہم پلہ بنا سکتا ہے۔ 

#buttons=(Accept !) #days=(7)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !