مناسب
اور متوازن غذا ہماری زندگی کی سب سے پہلی ضرورت ہی نہیں بلکہ زندگی کی بقاء کے
لئے لازمی بھی ہے۔
اس
کے بغیر ہم ایک لمحہ کے لئے زندہ نہیں رہ سکتے۔اگر غذا مناسب اور متوازن نہ ہو تو
انسان کی صحت برقرار نہیں رہ سکتی۔ غذا کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے۔اس لئے غذا ہماری روز مرہ
کی سب سے اول ضرورت ہے۔کہتے ہیں ہم جو کچھ ہیں اپنے ماحول کا نتیجہ ہیں۔اس ماحول کی ابتداء اس وقت سے ہوتی ہے، جب انسانی زندگی کا ایک
واحد خلیہ ماں کے رحم میں نشوونما کے لئے قرار پاتا ہے۔اسِ ماحول کا ایک ضروری
پہلو ہماری غذا ہے۔پیدائش سے پہلے بچہ اپنی غذا اپنی ماں کے خون سے حاصل کرتاہے
اور پیدائش کے بعد اس کا اپنا خون ہضم شدہ اجزائے غذا کولے کر اس کے جسم کے ہر حصے
کے ہر خلیہ تک پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غذا ہماری جسمانی نشوونما،ٹوٹ پھوٹ،قوت
حیات،ظاہر شکل وصورت اور عمر پر اثر انداز ہوتی ہے اور بلاواسطہ ہمارے اندازِ
فکر،طرزِزندگی،چہرہ مہرہ اور حال کو ظاہر کرتی ہے۔
عموما
ً کمزور انسان چڑ چڑا اور تنگ مزاج ہوتا ہے۔کہتے ہیں"بھوکا لڑتا نہ تو کیا
کرتا"۔پس ہماری ذات کے بننے میں ہماری غذا بہت دخل ہوتا ہے اور یہ انسان جو
شروع میں صرف ایک خلیہ (CELL) کا ہوتا ہے اور جسے خوردبین کی مدد کے بغیر
دیکھا نہیں جا سکتا؛غذا کے ذریعے ہی چند برسوں میں اربوں کھربوں خلیوں کا مجموعہ
بن جاتا ہے۔تمام وہ اجزاء جن سے یہ عجیب وغیرہ پیچیدہ انسان تیار ہوتاہے اِسی غذا
سے حاصل ہوتے ہیں،جو پیدائش سے پہلے اس کی ماں کو میسر تھی اور بعد از پیدائش جو
خود اسے میسر تھی۔پس تمام وہ اجزاء جو ایک انسان کے گوشت پوست،بالوں،دانتوں،ناخن،ہڈیوں،اعصاب،پٹھوں،رگوں
وغیرہ میں موجود ہیں اِسی غذا سے حاصل ہوتے ہیں جو اسے مہیا کی جاتی ہے۔اِس لئے
اگر غذا مناسب اور متوازن نہ ہو گی تو اس کا برا اثر انسان کی صحت پر پڑنا لازمی
ہے۔
قدرت
میں قوتِ حیات کا یہ عمل جس سے ٹھوس انسانی غذا معدہ اور انتڑیوں کی رطوبتوں سے
مائع بن کر خون کے ذریعہ انسانی جسم کا حصہ بن جاتی ہے"غذائیت"کہلاتی ہے
یا یوں کہیے کہ انسانی غذا لحمیہ، نشاستہ،روغنیات،معدنی مادے اور حیاتین پر مشتمل
ہوتی ہے۔ان غذائی اجزاء کے بارے میں اس تحقیق نے کہ یہ کس طریقے سے انسانی جسم کا
حصہ بنتے ہیں یا کس طریقے سے ایک عام انسان کا جسم ان اجزاء غذا کو اپنے اندرہضم
کرنے کے بعد جذب کرتا ہے۔یہ ثابت کیا ہے کہ غیرارادی کام کرنے والے اعضاء مثلاً دل،معدہ،جگر،انتڑیوں،گردے
اور ارادی کام کرنے والے اعضاء مثلاً ہاتھ،پاؤں،زبان وغیرہ روز مرہ کے کام کرنے کے
لئے ان ہی سے ضروری طاقت حاصل کرتے ہیں۔اِسی طرح رگوں،پٹھوں کے خلیوں کی روازنہ
ٹوٹ پھوٹ کی مرمت یا کمی پوری کرتا ہے۔غذا کی غذائیت کو عام فہم زبان میں حرارت کی
اکائیوں سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
سائنسدان
حرارت کی اس مقدار کو جو ایک کلو گرام پانی کے درجہ حرارت کو ایک درجہ سنٹی گریڈ
زیادہ کر دے۔حرارہ یا کیلوری(CALORI) کہتے ہیں۔اجزاء غذا کی طاقت یا گرمی کو
ظاہر کرنے کے لیے حراروں کی اکائیوں سے کام لیا جاتا ہے۔خاصی عرصہ کی تحقیقات کے
بعدسائنسدان یہ پتہ لگا چکے ہیں کہ ایک انسان کو زندہ رہنے کے لئے اور کام کرنے لے
لئے اس کے مخصوص حالات میں کتنی اکائیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اکائیاں ایک
مناسب اور متوازن غذا میں کس طرح مہیا کی جاسکتی ہیں۔تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایک
بچے کے لئے جس کا وزن صرف پندرہ سیر کے قریب ہے،اتنی غذا کافی ہے،جس سے اسے ہزار
بارہ سو کے قریب گرمی کی اکائیاں مِل جائیں۔میزپر بیٹھ کر کام کرنے والے کلرک کے
لئے رروزانہ دوہزار کے قریب گرمی کی اکائیاں کافی ہوتی ہیں۔
تاہم،فیکٹری
میں سخت کام کرنے والے مزدور کو اتنی غذا چاہئے،جس سے اسے ہر روز گرمی کی چار یا
ساڑھے چار ہزار اکائیاں حاصل ہو سکیں۔غرضیکہ غذائیت کے ماہرین نے شب ورروز کی محنت
شاقہ سے نہ صرف تمام اشیائے غذا کا تجزیہ کیا بلکہ ہر انسان کے لئے اس کی
جنس،وزن،عمر،قدو وغیرہ کے لحاظ سے حرارت کی اکائیوں کی مقدار حراروں میں معلوم کی
ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی معلوم کیا ہے کہ یہ حرارت کی اکائیاں کس کس غذا سے کتنی
کتنی حاصل کی جائیں۔کیونکہ اگر صرف حرارت کی اکائیوں کے کھانے کا ہی سوال ہوتا تو
ایک ایسی قسم کی تمام غذامثلاً شکریا گھی ہی سے یہ اکائیاں پوری کی جاسکتی تھیں۔لیکن
اس صورت میں تھوڑے ہی عرصے کے بعد کھانے والا دوسری غذائی چیزوں کے کھانے کی وجہ
سے طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر مرجاتا۔
لحمیات
لحمیات
ہماری غذا میں گوشت بنانے والے اجزاء لحمیہ یعنی پروٹین زیادہ ہونے چاہیں۔کیونکہ
جسم کے ہر خلیہ کو یہ درکار ہے۔بچپن اور بلوغت کے زمانہ تک پروٹین چاہیں۔کیونکہ
جسم ہر خلیہ کو یہ درکار ہے۔بچپن اور بلوغت کے زمانہ تک پروٹین زیادہ تر جسمانی
نشوونما کے لئے اور اس کے بعد ٹوٹ پھوٹ کی مرمت اور صحت کو برقرار رکھنے کے لئے
چاہئے۔ماہرین غذا کے نزدیک حیوانی اور نباتاتی دونوں ہی قسم کی پروٹین جسم کو
روزانہ درکار ہوتےہیں۔ بکری، بھیڑ، گائے اور مرغی کا گوشت، مچھلی،انڈا، پنیر، دودھ،
بادام، اخروٹ، مونگ پھلی، چلغوزے، چنے، مٹر، دال، لوبیا، سویابین، جگر، گردے، دل
وغیرہ اشیاء میں پروٹین کی مقدار زیادہ پائی جاتی ہے۔پروٹین یونانی لفظ ہے،جس کے
معنی"اول" کے ہوتے ہیں۔
پروٹین
مختلف امینوترشوں(AMINOACIDS) سے بنی ہوتی ہیں۔انسانی خون ہاضمہ کے دوران
ضرورت اور مطلب کے مطابق امینوترشے (AMINOACIDS) چن لیتا ہے۔جن سے جسم کے مختلف حصے بنتے
اور ٹوٹ پھوٹ کی مرمت ہوتی ہے۔یوں سمجھئے کہ خون ہمارے جسم کا معمار ہے اور امینوترشے، اینٹیں، اس معمار یعنی خون کو جسم کے مختلف حصے بنانے اور ان کی
ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کے لئے مختلف قسم کی یہ اینٹیں یعنی امینو تر شے روزانہ درکار
ہوتے ہیں اور خون انھیں اِس غذا سےحاصل کرتا ہے جو انسان کھاتا ہے غذا کے باقی
ماندہ پروٹین بدن سے خارج ہو جاتے ہیں۔ دیگر اجزائے غذا کی طرح پروٹین انسانی جسم
میں جمع نہیں رہتی۔
اِس
لئے انسانی جسم کو لگاتار پروٹین کی ضرورت رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پروٹین غذا کا
نہایت ہی ضروری حصہ جب کبھی جسم کو غذا میں مطلب کی پروٹین نہیں ملتی تو جسم وہ
کمی اپنے ہی گوشت سے پوری کرنی شروع کر دیتا ہے۔اِس کی صحت گرنی شروع ہو جاتی ہے۔
پس پروٹین جسم اِنسانی کی نشونما،مرمت،قوت اور صحت قائم رکھتی ہے۔
نشاستہ
غذا
میں وہ حصہ جو انسانی جسم میں طاقت اور گرمی پیدا کرتا ہے کاربوہائڈریٹس یا نشاستہ
(CARBOHYDRATES) کہلاتا ہے۔ غذا کا یہ حصہ زیادہ تر گندم، مکئی،
جو، چاول، سیویاں، گڑ، شکر، چینی، شربت، مربہ، شہد، پیسٹری، کیک، بسکٹ، مٹھائیوں، آلو
کچالو کھانے سے حاصل ہوتا ہے۔ غذا میں اِس کی مقدار اتنی ہی چاہئے جتنی گرمی کی
اکائیاں جسم کو درکار ہوں۔جن ایام میں زمیندار گندم کا ٹتے ہیں یا اور سخت جسمانی
محنت کا کام کرتے ہیں وہ کثرت سے گڑ کا شربت پیتے ہیں۔ فٹ بال، ہاکی، ٹینس، باسکٹ
بال کے کھلاڑی عموما ً میچ کے دوران کوزے کی مصری، ٹافی یا اِسی قسم کی کوئی میٹھی
چیز کھاتے ہیں۔آرام اور سکون کی زندگی بسر کرنے والے انسان کی غذامیں نشاستہ کی
زیادتی کی وجہ سے جو حصہ جلنے کے بعد بچ جاتا ہے وہ جسم میں جمع ہونا شروع ہو جاتا
ہے۔کچھ عرصہ کے بعد بدن میں فربہی آجاتی ہے تو "توند" نکل آتی ہے اور
وزن ضرورت سے زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اِسی لئے اس زمانے میں جب کہ انسان بہت سے کام
مشین کے ذریعے کرتا ہے غذا میں نشاستہ کی مقدار اِسی نسبت سے کم ہونی چاہئے۔
چربی اور روغنیات
یہ
غذا میں تیسری قسم کی غذا ہے،جس سے جسم میں گرمی اور طاقت پیدا ہوتی ہے۔وہ گھی، مکھن،
تیل یا ایسی چیزیں جن میں چکنائی یعنی روغن پایا جاتا ہے۔ مثلاً چربی والا گوشت، دودھ،
پنیر، کھویا، کریم اور تیل والے بیج یا مغزیات ایک لحاظ سے روغنیات غذا میں زیادہ
اہمیت نہیں رکھتے۔کیونکہ اگر غذا میں نشاستہ، شکر، چینی، گڑ، فاضل ہوں تو وہ جسم میں چربی کی شکل میں جمع ہو جاتے
ہیں۔یادر ہے کہ ہموزن لحمیہ اور نشاستہ میں حرارت کی اکائیوں کی مقدار قریبا ً
برابر ہوتی ہے اور ہم وزن روغن میں قریبا ً دوگنی۔
روغن
تیل یا چربی وغیرہ غذا طاقت اور حرارت مہیا کرنے کے علاوہ دوسرے ضروری اجزاء غذا
کی بھی حامل ہوتی ہے۔ اور اِسی بناء پر ایک کو دوسری غذا پر ترجیح دی جاتی ہے۔گھی
اور بناسپتی میں بلحاظ حرارت کی اکائیوں کے کوئی فرق نہیں۔مگر گھی میں اے (الف)
اور ڈی(د) حیاتین موجود ہوتے ہیں جو بنا سپتی گھی میں نہیں ہوتے۔پھر زیادہ حرارت
کی وجہ سے روغن، تیل یا چربی والی غذا کم مقدار میں کھانی پڑتی ہے جس سے معدہ کو
زیادہ کام نہیں کرنا پڑتا۔ خاص طور پر بلوغت کے زمانے میں سے گزرنے والے اور سخت
جسمانی محنت کرنے والے مردوزن کے لئے ایسی غذا بہت مفید رہتی ہے۔
معدنی مادے
جدید
تحقیق کے مطابق کوئی دودرجن کے قریب کیمیائی عناصر جسمانی صحت کو برقرار رکھنے میں
ممد ہوتے ہیں۔یہ عناصر مختلف اشیاء غذا میں مختلف مرکبات کی شکل میں مختلف مقدار میں
پائے جاتے ہیں۔گوغذا میں ان کی کمیت بہت ہی قلیل ہوتی ہے مگر تندرستی کوقائم رکھنے
میں ایک اہم فرض ادا کرتے ہیں۔ان میں سے تین عناصر کیلشیم، لوہا اور آئیوڈین کا
ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔جن غذاؤں میں یہ پائے جاتے ہیں؛ ان کے ساتھ ہی دوسرے عناصر
بھی موجود ہوتے ہیں۔عام طور پر غذا میں کیلشیم اور لوہے کی کمی ہوتی ہے۔انسانی جسم
میں غذا کا99فیصد کیلشیم ہڈیوں اور دانتوں میں کام آتا ہے۔ظاہر ہے کہ
شروع میں جب ہڈیاں اور دانت بن رہے ہوتے ہیں کیلشیم زیادہ مقدار میں استعمال ہوتا
ہے۔غذا میں کیلشیم کی کمی کئی دفعہ بچوں کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ چاک، مٹی، ملتانی
مٹی "گاچنی" کھانی شروع کر دیں۔ ہڈیاں اور دانت بن جانے کے بعد ان کو
مضبوط رکھنے مزید عضلات یعنی پٹھوں اور خون کے لئے جسم میں کیلشیم کی ضرورت باقی
رہتی ہے۔جسم اسے فاسفورس اور وٹامن ڈی کی موجودگی میں جذب کرتا ہے۔دراصل تمام معدنی
مادوں کا یہی حال ہے۔یہ صحیح طور پر ایک دوسرے کی موجودگی میں ہی جسم میں جذب ہوتے
ہیں۔جسم میں کیلشیم کی کمی ہڈیوں کی بے قرینہ ساخت میں ظاہر ہوتی ہے۔
عضلات
یعنی پٹھوں میں صحیح طور پرکھچاؤ اور ڈھیلا پن پیدا نہیں ہوتا۔اعصاب اور خون کے
انجماد میں نقص پیدا ہو جاتا ہے اور کئی دفعہ دل کی حرکت میں بے قاعدگی پیدا ہو
جاتی ہے۔دودھ ایک ایسی غذا ہے جس کا کیلشیم بہت ہی عمدہ طور پر جزون بنتا ہے۔اِن
ممالک میں جہاں دودھ کی قلت ہے وہاں لوگ کیلشیم کی کمی دوسری چیزوں سے پوری کرتے
ہیں۔ مثلا ً اسکیمو لوگ کچی ہڈیوں کے سرے،جاپانی لوگ مچھلیوں کی نرم ہڈیاں اور
چینی لوگ سویا بین کا دودھ یا دہی جما کر کھاتے ہیں۔مگر یہ چیزیں گائے، بھینس، بکری،
بھیڑ، اونٹ کے دودھ کے مقابلے میں ناقص ہیں۔ ہمارے لئے دودھ ایک نہایت ضروری غذا
ہے۔کیونکہ گوشت، اناج، گھی اور مٹھائیاں جو ہم عموما ً کھاتے ہیں ان میں کیلشیم نہ
ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ آئرن یعنی لوہے کے مرکبات کی گونہایت ہی قلیل مقدار روزانہ
درکار ہوتی ہے،مگر روزمرہ کی غذا میں اِس کا ہونا لازمی ہے۔ کیونکہ اِس کی غیر
موجودگی میں کچھ عرصے کے بعد جسم میں خون کی کمی کی وجہ سے چہرہ زرد پڑ جاتا ہے۔انسان
کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اپنے آپ میں تھکاوٹ محسوس کرتا ہے،کیونکہ جسم میں
آہنی مرکبات تانبہ کی مدد سے پروٹین سے مل کر ایک مرکب ہیموگلوبن (HEMOGLOBIN) بناتے ہیں،جسے
حمرت خون کہتے ہیں۔ جو خون کے سرخ خلیوں کا ایک ضروری جزو ہے۔ہوا کی آکسیجن جو
پھیپھڑوں کے ذریعے ہم اپنے اندر لے جاتے ہیں یعنی سانس لینے کاعمل۔توخون کی
ہیموگلوبن ہی کے ذریعے یہ آکسیجن جسم کے ہر حصہ کے ہر خلیہ کے پاس پہنچتی ہے۔ خاص
طور پر بچے کی پیدائش سے پہلے اور پیدائش کے بعد جب وہ صرف ماں کا ہی دودھ پی رہا
ہو؛ماں کی روازنہ غذا میں اور بعدہ بچے کی اپنی غذا میں مناسب مقدار میں لوہے کے
مرکبات کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ہماری روزانہ کی غذا میں ایک غذا کم ازکم ایسی ہونی
چاہئے جس میں لوہے کے مرکبات موجود ہوں۔
جانوروں،
بھیڑ، بکری، گائے وغیرہ کا جگر، خشک پھل، ثابت گندم کا آٹا اور سبزیات کھانے سے
آہنی مرکبات حاصل کئے جاتے ہیں۔آئیوڈین کی ضرورت جسم میں غدودو رقیہ(THYROIDGLANO)کو ہوتی ہے،جو
اس سے ایک مرکب تھائی راکسن(THYRO
XIN) بناتی ہے۔جس
کے ذریعہ بدن میں کئی ضروری عمل قابل میں رہتے ہیں۔مثلاً اگر غدوددورقیہ سست ہو
جائے تو غذا کا حصہ بجائے بدن کو گرمی پہنچانے کے چربی کی شکل میں جمع ہونا شروع
ہو جاتا ہے۔اگر معمول سے زیادہ مستعد ہو جائے تو جسم کی محفوظ غذا بھی ضرورت سے
زیادہ جلنی شروع ہو جاتی ہے۔اِن دونوں صورتوں میں انسان کی جسمانی اور ذہنی صحت
طبعی حالت میں نہیں رہتی۔اناج،پھل اور سبزیاں یہ عنصر اس زمین سے حاصل کرتے ہیں
جہاں یہ اگتے ہیں۔ جس علاقہ کی زمین میں یہ عنصر موجود نہیں۔وہاں کے لوگ ایسی زمین
کی پیداوار کھانے کے کچھ عرصہ بعد ایک بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ جسے عام زبان
میں گلِٹر کہتے ہیں۔ بھارت کے ضلع کا
نگڑہ میں یہ بیماری عام ہے۔ ایسے علاقے کے لوگوں کو نمک کے ساتھ آئیوڈین کا مرکب
ملا کر کھلایا جاتا ہے۔ ایسے نمک کو آئیوڈائیز سالٹ (IODISED SALT)کہتے ہیں۔وٹامن
یا حیاتین جیسا کہ نام سے ظاہر ہے،غذا کا ایسا جزو ہے جس پر زندگی کا انحصار
ہے۔مگر غذا کا یہ کون ساجزو ہے؟ اِس کا ایک عرصہ تک پتا نہ چل سکا۔یہ بات تو بالکل
واضح ہو چکی تھی کہ غذاکی کمی یا غذا کی حالت بدل جانے سے اسکروی(SCURVI) بیری بیری(BERI BERI) اور پلیگرا (PELLACRA) جیسی مہلک
بیماریاں ہو جاتی ہیں۔
جب
غذا میں اِس غذا کو ڈال دیا جاتاہے یا اِس کی حالت کو ٹھیک کردیا جاتا ہے تو نہ
صرف ایسی بیماریاں پھیلنے سے رک جاتی ہیں بلکہ جو لوگ اِن بیماریوں میں مبتلا ہوتے
ہیں ان کو شفا بھی ہو جاتی ہے۔جب تک غذا کے ان اجزاء کی کیمیائی ساخت معلوم نہ
ہو،ان کو الف،ب،ج،د جیسے نام دئیے گئے مگر اب وہ صورت نہیں رہی۔اب سائنسدان ان
کیمیائی مرکبات اور ان کی صفات کو پوری طرح جان چکے ہیں اور کوئی بیس کے لگ بھگ
حیاتین کا پتا لگ چکا ہے،یہاں ہم صرف چند ضروری حیاتین کا ذکر کررہے ہیں۔
حیاتین الف
غذا
میں اِس کی کمی بینائی کو کم کر دیتی ہے اور جسم میں پھیپھڑوں کی متعدی بیماری کے مقابلہ
کرنے کی قدرتی قوت کم ہو جاتی ہے۔رات کے وقت ہوائی جہاز اڑانے والوں کی غذا میں
اِس کی خاص مقداردی جاتی
ہے۔دودھ،کریم،مکھن،گاجر،ٹماٹر،سلاد،پالک،انڈا،کلیجی،گردے،سنگترہ وغیرہ میں پائی
جاتی ہے۔
تھیامین THIAMIME
یہ
تھکاوٹ کوروکتی ہے اور اعصاب کو برقرار رکھتی ہے۔غذا میں اِس کی کمی بھوک کو کم کر
دیتی ہے اور قبض کرتی ہے۔نرم گوشت بغیر چیز کے لوبیا اور مٹر میں پائی جاتی ہے۔
رایبوفلادین
جسم
میں نشاشتہ کے جلنے کے عمل میں ممد ہوتی ہے۔ جلد کو صاف اور ملائم رکھتی ہے،غذا
میں اِس کی کمی کی وجہ سے کچھ عرصہ کے بعد دہن کے کونوں کی جلد پھٹ جاتی ہے۔ یہ
دودھ،کلیجی،سبزیوں،نرم گوشت بغیر چربی کے،انڈا وغیرہ میں پائی جاتی ہے۔
نیا سین NIACIN
غذا
میں اس کی موجودگی ہاضمہ کو تیز کرتی ہے اور ذہنی صحت کو برقرار رکھنے میں ممد
ہوتی ہے۔یہ پیلگرا کو روکتی ہے۔جانوروں اور پرندوں کے گوشت میں پائی جاتی ہے۔
ایسکاربک ایسڈ ASCORBIC
ACID
جسم
میں خلیوں کو مضبوط کرتا ہے اور زخموں کو جلد تندرست ہونے میں ممد ہوتا ہے۔غذا میں
اِس کی کمی کی وجہ سے جسم میں خون کی ننھی نالیاں جلد پھٹ جاتی ہیں۔مسوڑوں میں سے
جلد خون نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔ اور اسکروی SCURVY کی
بیماری ہو جاتی ہے۔ مالٹا، سنگترہ، لیمو، ٹماٹر، گوبھی، شلغم ودیگر سبزیوں میں
پایا جاتا ہے۔غذا کو زیادہ دیر تک آگ پر پکانے سے یہ ضائع ہو جاتا ہے۔جسم میں جمع
نہیں رہتا بلکہ خارج ہو جاتا ہے۔اِس لئے روزانہ ایسی غذا کھانی چاہئے جس میں یہ
موجود ہو۔