کھانا پکانے کے برتن اور انسانی صحت
اب کی بارکھانے سے پہلے ذرابرتنوں پر
بھی ایک نظرڈال لیجئے گا۔۔۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کی تنبیہ
صحت
وصفائی کے اصولوں سے بالعموم باورچی خانوں میں بڑی بے پروائی برتی جاتی ہے۔ عموما
کھانےپکانے والے برتن کالے سیاہ ہوتے ہیں۔ انہیں صحیح طرح دھویا نہیں جاتا۔ اس کے
علاوہ بتنوں کے انتخاب میں مناسب احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی جا تیں۔ انسانوں
کے استعمال کے لیے اولین برتن مٹی سے بنائے گئے جبکہ آج کا انسان مٹی کے برتن سے
دور ہو چکا ہے اور مختلف دھاتوں سے بنے برتن استعمال کرتاہے۔ انسانی ارتقاء میں
تانبے سے بنی اشیاء کے استعمال کا آغاز تانبے کا دور کہلاتا ہے۔ اس میں دھات سے
دیگر کئی اشیاء کے علاوہ برتن بھی بنائے جاتے تھے۔ دیگچیاں،پتیلیاں کڑاہیاں،فرائی
پین اور چمچے وغیرہ ہر باورچی خانے کی اہم ضرورت ہوتے ہیں۔ یہ اشیاء روزروز نہیں
خریدی جاتیں اس لئے انہیں خریدنے کے دوران بے احتیاطی نہیں برتنی چاہئے۔صحت
وتندرستی کو برقرار رکھنے کے لیے کھانے پکانے کے برتنوں کے حوالے سے ذیل میں چند
اقسام کے برتنوں کے متعلق کچھ تفصیل بتائی جارہی ہے۔
اب آپ بھی انٹرنیٹ سے لاکھوں ڈالر کما سکتے ہیں
مٹی کے برتن:انسان نے ابتدامیں
صرف مٹی کے برتن ہی بنائے اور انہیں استعمال کیا،آج بھی یہ برتن استعمال ہوتے ہیں
بالخصوص دیہی علاقوں،اب بھی سالن بنانے کے لیے مٹی سے بنی ہانڈی اور گھڑے استعمال
میں لائے جاتے ہیں۔یہ برتن مسام دار ہوتے ہیں اس لئے ان پر حرارت کی اچانک تبدیلی
کا کوئی اثر نہیں ہوتا،بعض افراد ایسی ہانڈیوں کے سالن کے متعلق کہتے ہیں کہ سالن
مضر ہوتا ہے لیکن ایسی کوئی بات نہیں۔ہاں اگر ان کے اندرروغن یا سیسے کی پالش کی
گئی ہوتو پھر یہ مضر ہوتے ہیں۔
لوہے کے برتن: لوہے کے
کڑچھے،توے،فرائی پین وغیرہ آج کل کے دور میں بھی بہت عام ہیں۔مٹھائیاں بنانے والے
اب بھی لوہے کے بڑے بڑے کڑاں استعمال کرتے ہیں۔لوہے کا ایک عیب یہ ہے کہ اس میں
زنگ لگ جاتاہے جو مضر صحت ہوتاہے۔
تانبے کے برتن: تانباحرارت کا
بہتر موصل (کنڈکٹر)ہوتاہے۔ اس کے برتن میں حرارت اچھی طرح پھیلتی ہے اور کھانا آسانی
سے پکتا ہے،ایسے برتنوں کے لیے زیادہ حرارت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن جدید تحقیق
سے ثابت ہوا ہے کہ تانبے اور ایلومینیم کے برتنوں میں پکائے جانے والے کھانے مضر
صحت ہوتے ہیں۔کچھ دھاتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی ذراسی بھی مقدار معدے میں چلی جائے
تو اس سے بڑے مضراثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پکانے کے کسی برتن کے استعمال سے مسائل پیدا ہونے کا دارومدار اس بات پر ہے
کہ برتن کس دھات کا بناہوا ہے اور اس برتن میں کونسی شے پک رہی ہے۔تانبے کی قلعی
کے برتن بہت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔اگرچہ تانبا جسم کے لیے ضروری ہے مگر اس کا
زیادہ استعمال زہر یلاثابت ہوت ہے۔ تقریبًا ایک صدی پہلے تانبے کے برتنوں میں
کھانے پکانے کا رواج عام تھا،اس زمانے میں تانبے کے برتنوں میں پکانے کی وجہ سے
ہونے والے امراض عام تھے۔ آج تانبے کے ہر برتن پر اسی خوف کے پیش نظر قلعی کی تہہ
چڑھائی جاتی ہے اس طرح سے تانبے کے زہر یلے اثرات سے کسی حدتک بچا جاسکتاہے۔
پیتل کے برتن: جست اور تانبے کے ملاپ سے جو دھات تیار کی گئی وہ پیتل
کہلاتی ہے۔پیتل(براس) کے برتن برصغیر میں ہندوؤں کے لیے مخصوص سمجھے جاتے تھے جبکہ
مسلمانوں کے ہاں تانبے کے سرخ برتن قلعی کرنے کے بعد استعمال ہوتے تھے۔ عمدہ قسم
کے پیتل میں تین حصے تانبا اور ایک حصہ جست(زنک) ملاہوتاہے۔ یہ برتن تیزابی اجزاء
سے متاثر ہوکر کھانے کو خراب کر دیتے ہیں،اس لئے مسلمان گھرانے اب بھی ان میں
کھانے پکانے کو مناسب خیال نہیں کرتے۔اگر پکانا بھی پڑے توان میں قلعی کرالی جاتی
ہے۔
ایلومینیم کے برتن: موجودہ دور میں تانبے کے برتوں کی جگہ جس دھات نے لے لی ہے
اسے ایلومینیم کہتے ہیں۔تانبے اور دھات کے مقابلے میں ایلو مینیم کے برتن کم قیمت ہوتے ہیں اس لئے بکثرت
استعمال ہوتے ہیں۔جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایلومینیم کے برتنوں میں کھانا
پکانے سے سے صحت پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں،اس سلسلے میں حال ہی میں ایک
تحقیق ہوئی جس کے سربراہ ڈاکٹر جارج
ڈونلسن نے تجربات کے ثابت کیا کہ ایلومینیم کے برتنوں میں کھانا پکانے سے اس کے
بعض اجزاء مختلف قسم کے زیلے مرکبات میں تبدیل ہو کر کھانے میں مل جاتے ہیں اور
مختلف طبائع پر مختلف قسم کے مہلک اثرات کا باعث ہوتے ہیں۔ بعض طبیعتیں خصوصیت کے
ساتھ ان زہریلے اثرات کو قبول کر لیتی ہیں، یہ اثرات پہلے پہل نہایت معمولی اور
غیر محسوس ہوتے ہیں؛ لیکن سبب کے زائل نہ ہونے کی وجہ سے دن بدن بڑھتے چلے جاتے
ہیں۔ حتیٰ کہ انسان کو اچھا خاصا مریض بنا دیتے ہیں۔ تجرے کے دوران معلوم ہوا کہ
ایک مرتبہ جب سوڈے کا پانی ایلومینیم کے برتن میں ڈالا گیا تو اس میں جھاگ پیدا
ہونے لگا،حالانکہ جب اسی پانی کو شیشے کے گلاس میں ڈالا گیا تو ذرا بھی جھاگ پیدا
نہ ہوا۔ یقینا ً کھانا پکانے کے دور ان ایلومینیم کے اجزاء حل ہو کر کھانے کی
چیزوں میں شامل ہو جاتے ہیں اور مختلف امراض کا باعث بنتے ہیں۔ ایلومینیم کے برتن
میں نصف گھنٹے تک پانی کو جوش دینے سے اس میں ایلومینیم ہائیڈرو آکسائیڈ (ایک
زہریلی قسم کا مرکب) شامل ہو جاتا ہے، جو صحت کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوتا ہے۔
اس دھات کو اگر کسی چاقو یا چھری سے کھرچ کر ذائقہ چکھا
جائے تو یہ پھٹکری کے سےذائقے جیسا محسوس ہوتا ہے۔(پھٹکری کو ایلم کہا جاتا ہے
کیونکہ یہ ایلومینیم کا ایک نمک ہے)۔ ایلو مینیم کے تمام کیمیائی مرکبات مضر ہوتے
ہیں۔ بعض میں زہریلا مادہ زیادہ ہوتا ہے بعض میں کم،اور جب یہ مرکبات غذا کے ساتھ
معدے میں پہنچ جاتے ہیں تو اپنا عمل شروع کر دیتے ہیں،جو عموماً آنتوں کو کمزور کر
دیتا ہے اور معدے کے نازک پردوں پر زخم پیدا کر دیتا ہے۔
ایلومینیم کے برتن میں چائے پکانے سے اس کے خاصے اجزاء چائے
میں شامل ہو جاتے ہیں۔اس کے علاوہ اگر ایلومینیم کے برتن میں کچے آم پکا کر کھائے
جائیں تو قے کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔کئی غذاؤں کی تاثیران برتنوں میں پکنے سے
ضائع ہونے لگتی ہے اور کئی بار بیشتر کھانے اپنی غذائی تاثیر سے محروم ہو جاتے
ہیں۔
ایلومینیم کے برتنوں کے متعلق چند محققین کی آراء
ملاحظ فرمائیے:
مشتبکن یونیورسٹی کے ڈاکٹر وکٹوردن کا کہنا ہے کہ ایلومینیم
کے تمام نمک انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر اثرات رکھتے ہیں۔
شکا گویونیورسٹی کے ڈاکٹر ویلز کے مطابق ایلو مینیم کے
مرکبات معدے میں پہنچ کر مہلک اثرات دکھائے بغیر نہیں رہتے،اندرونی اعضاء کے تمام
پرزے کمزور ہو جاتے ہیں، ان کے مساموں میں میں ایلومینیم کے مرکبات جم کر نقصان
پہنچاتے ہیں۔
ڈاکٹر ایچ اے شیگن لکھتے ہیں کہ ایلو مینیم کے مرکباب معدے
میں پہنچ کر بھوک کم کر دیتے ہیں اور بعض اوقات درد کی سی کیفیت پیدا ہونے لگتی
ہے،جس کے نتیجے میں پیحپش،قے اور متلی کا احساس ہونے لگتا ہے۔
امریکہ ہیلتھ لیگ کے صدر ڈاکٹر ہیلڈ کا فیصلہ ہے کہ یہ
مرکبات معدے کی کمزور کا باعث ہیں۔
1970ء کے عشرے میں
کینیڈا کے طبی ماہرین نے انکشاف کیا تھا کہ ذہنی مرض الزائیمر (بھول کا مرض) کی
ایک وجہ اس دھات کا استعمال بھی ہے۔
ڈاکٹر جے ویسٹ نائٹ کہتے ہیں کہ ایلومینیم کے برتنوں کا
استعمال طبی اعتبار سے مضر صحت ہے۔
نان اسٹک برتن:ایسے برتن جن کی اندرونی سطح گہرے رنگ کی ہوتی ہے اور یہ
دیگر برتنوں کی نسبت قدرے مہنگے ہوتے ہیں،انہیں "نان اسٹک" یعنی کھانے
نہ چپکانے والے برتن کہا جاتا ہے۔ایسے
برتنوں کی تیاری میں ایک کیمیائی مادہ"ٹیفلون"استعمال ہوتاہے،جس کے بارے
میں ماحولیاتی تحفظ کے امریکی ادارے (ای پی اے) نے خبر دار کیا ہے کہ ایسے برتنوں
میں تیار کئے گئے کھانوں سے سرطان جیسے کئی مہلک امراض لا حق ہونے کا خطرہ ہوتا
ہے۔ایسی حاملہ خواتین جو دوران حمل ایسے برتنوں میں کھانا تیار کرتی ہیں یا ان
برتنوں میں تیار کیا گیا کھانا کھاتی ہیں،ان کے ہاں جسمانی نقائص والے بچے جنم
لیتے ہیں۔ماہرین کے مطابق ٹیفلون سے کوٹنگ کئے گئے برتنوں کو جب گرم کیا جاتا ہے
تو حرارت ملنے پر اس سے "پولی ٹیٹر افلویوتھائلین" نامی کیمیائی مادے
خارج ہوتے ہیں۔ یہ مادے بے بو بخارات کی شکل میں ہوتے ہیں جو نہ صرف انسانوں کو
بلکہ پالتوں جانوروں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
پاکستان میں نان اسٹک برتنوں کا استعمال بڑھتا جارہاہے جس
کی وجہ سے کئی امراض جنم لے رہے ہیں۔یہاں عمومی طور پر یہ برتن گفٹ پیک میں دستیاب
ہوتے ہیں اور عموماً لوگ اپنے چاہنے والوں کو انہی برتنوں کا تحفہ دیتے ہیں۔لیکن
شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ کئی امراض کا تحفہ دے رہے ہیں۔
تام چینی کے برتن:تام چینی کے برتن بنیادی طور پر لوہے کے بنے ہوتے ہیں جن پر
تام چینی(پورسلین )کی تہہ چڑھائی جاتی ہے۔کھانا پکانے کے لیے یہ بھی بہترین ہوتے
ہیں کیونکہ یہ حرارت کو موزوں طریقے سے جذب کرتے ہیں۔گیس کے چولہوں کے لیے یہ بہت
مناسب ہوتے ہیں مگر ان میں ایک خرابی ہوتی ہے:ٹھیں لگنے سے ان کا روغن اترجاتاہے
اور برتن بدنمالگتے ہیں۔عمدہ قسم کے تام چینی والے برتنوں میں یہ عیب ذرا کم
ہوتاہے۔
اسٹین لیس اسٹیل کے برتن:لوہے میں نکل دھات کی آمیزش سے مخلوط دھات کی ایک
قسم"اسٹین لیس اسٹیل"کے نام سے تیار کی گئی۔ اس مرکب دھات کی تیاری میں
نکل کے علاوہ مولبڈینم اور ٹائی ٹینیم بھی استعمال ہوتی ہیں۔اس قسم کا بکثرت
استعمال دنیا بھر میں عام ہے۔اسٹین لیس اسٹیل کے برتن اگرچہ مہنگے ہوتے ہیں لیکن
کھانا پکانے کے لیے انہیں بہترین سمجھا جاتاہے۔ تا ہم، ان میں یہ عیب ضرور ہوتا ہے
کہ یہ بہت جلد گرم ہو جاتے ہیں اور حرارت یکساں انداز میں نہیں پھیلتی؛جس کی وجہ
سے ان میں گوشت،سبزی،دال،چاول وغیرہ کا داغ لگ جاتا ہے۔ لیکن صحت کی بہتری کے لیے
یہ کوئی عیب نہیں مانا جاسکتا،بلکہ آج کل اس عیب کو دور کرنے کے لیے ان کے پیندے
میں تانبے یا ایلو مینیم کی اضافی پرت لگائی جاتی ہے۔
پلاسٹک کے برتن:آج کل اکثر گھروں میں پلاسٹک کے برتنوں کا استعمال دن بدبڑھ
رہاہے۔ ریفریجریٹروں میں پانی بھی پلاسٹک کے برتنوں میں رکھا جاتا ہے اور بعض خواتین نادانی میں پلاسٹک کے برتنوں کو
مائیکروویواوون میں بھی رکھ دیتی ہیں۔ماہرین طب کے مطابق پلاسٹک کے برتنوں میں
پایا جانے والا ایک مادہ"ڈائی آکسن"(Dioxin) سرطان جیسے
موذی مرض کا باعث بنتا ہے اور خواتین میں
یہ کیمیکل چھاتی کے سرطان کی ایک اہم وجہ بھی ہے۔پلاسٹک کے برتنوں میں سے
انہتائی کم درجہ حرارت پر بھی یہ کیمیکل (ڈائی آکسن) خارج ہونے لگتا ہے۔ یہ کیمیکل
انسانی جسم کے خلیات میں بہت تیزی سے سرایت کر جاتا ہے اور ان خلیات کو بہت زیادہ
نقصان پہنچاتا ہے۔پلاسٹک کے برتنوں کے علاوہ عموماً ریستوران سے کھانا گھر لے کر
جانے والے افراد پلاسٹک کے تھیلوں میں کھانا ڈلوالیتے ہیں جو کہ انتہائی نقصان دہ ہے کیونکہ پلاسٹک
اور حرارت،دونوں مل کر ڈائی آکسن کے اخراج کا باعث بنتے ہیں اور یہ کیمیکل کھانے
میں شامل ہو کر انسانی جسم تک پہنچ جاتا ہے۔