بادلوں اور بارشوں کے بارے میں بشکریہ گلوبل سائنس کراچی

ترجمہ : "کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ ہی بادلوں کو (آہستہ آہستہ) چلاتا ہے پھر ان کو آپس میں ملادیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ بادل میں سے بارش( نکل کر) برس رہی ہے اور وہ آسمان سے، ان پہاڑوں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں، اولے برساتا ہے پھر جسے چاہتا ہے ان کا نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچالیتا ہے۔"    ( سورۃ النور 43)
"اور وہی تو ہے جو اپنی رحمت(یعنی بارش) سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری (دے کر) بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب وہ بھاری بھاری بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں تو ہم انہیں ایک مری ہوئی بستی کی طرف ہانک دیتے ہیں پھر بادل سے بارش برساتے ہیں پھر بارش سے طرح طرح کے پھول پیدا کرتے ہیں اسی طرح ہم مردوں کو (زمین سے) زندہ کرکے باہر نکالیں گے۔(یہ آیات اس لئے بیان کی جاتی ہیں) تاکہ تم نصیحت پکڑو۔"           (سورۃ الاعراف 57)
"اور اللہ ہی تو ہے جو ہوائیں چلاتا ہے اور وہ بادلوں کو ابھارتی ہیں پھر ہم اس( بادل) کو ایک بے جان شہر کی طرف چلاتے ہیں پھر اس سے زمین کو( اس کے مرنے کے بعد) زندہ کردیتے ہیں اسی طرح مردوں کو بھی جی اٹھنا ہوگا۔"      (سورۃ فاطر 9)


یہ چند منتخب آیات واضح طور پر بادلوں کے بننے اور بارش برسنے کے ضمن میں بحث کرتی ہیں یہ قرآن کریم کا مخصوص اسلوب ہے کہ وہ کسی ایک امر کی بہت زیادہ تفصیل میں جائے بغیر اسے کچھ اس طرح بیان کردیتا ہے کہ بات مکمل بھی ہوجائے اور اختصار و جامعیت کی خاصیت بھی برقرار رہے یوں تو اس مقدس ترین کتاب کی ہر سورۃ کی ہر آیت کا ہر لفظ ہر انسان کے لئے مشعل راہ ہے لیکن بعض آیات میں مخصوص شعبہ ہائے علم سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے فکر کا سامان بھی ہوتا ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ آیات خاص طور پر ماہرینِ موسمیات کو مخاطب کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ہواؤں کا چلنا، بادلوں کا بننا، ان کا مختلف سمتوں میں حرکت کرنا، تہہ بہ تہہ حالت اختیار کرنا، برس پڑنا اور موسم میں تبدیلی لانا ۔۔۔یہ تمام مظاہر، موسمیات(Meteorology) کے تحت آتے ہیں۔
ہوا سے ہمارا ہر روز بلکہ ہر لمحے سامنا رہتا ہے۔ ہم اس میں سانس لیتے ہیں، زندہ رہتے ہیں اور زندگی کے افعال جاری رکھتے ہیں۔ ہوا رُک جائے اور حبس ہو جائےتو ہم پریشان ہوجاتے ہیں۔ ٹھنڈی اور ہلکی ہلکی چلنے والی ہوا سے ہمیں ایک خوشگوار احساس ہوتا ہے۔ یہی ہوا جب جھکڑوں، آندھیوں اور طوفانوں کی سی تندہی اور تیزی اختیار کرلے تو ہمارے لئے نقصان کا باعث بنتی ہے۔ کتنی دلچسپ بات ہے کہ بادلوں کے بننے سے لے کر ان کے حرکت کرنے، برسنےاور بکھر جانے تک میں ہوا کا کردار مرکزی حثییت کا حامل ہے۔ قرآن کریم میں ہواؤں کو خوشخبری دے کر بھیجنا بھی اسی پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ دعوت ملتی ہے کہ ہم موسمیاتی نظام کا گہری نظر سے مشاہدہ کریں۔
دیکھیئے تو سہی کہ قدرت کا یہ کارخانہ کس خوبی کے ساتھ رواں دواں ہے: خشک ہوا زیادہ جلدی گرم اور ٹھنڈی ہوتی ہے جبکہ نمی والی (جس میں آبی بخارات کی مقدار زیادہ ہو) ذرا دیر سے گرم یا ٹھنڈی ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک سائنسی حقیقت ہے کہ سرد ہوا، بھاری ہوتی ہے جبکہ گرم ہوا قدرے ہلکی ہوتی ہے۔ ہواؤں کی یہ خصوصیات ہمارے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ کسی دریا، جھیل یا سمندر پر سورج چمکتا ہے تو اس کی تمازت سے ہوا بھی گرم ہوتی ہے اور پانی بھی۔فرض کیجئے کہ یہ ہوا خشک ہے تو جلدی گرم ہو جائے گی اس کے گرم ہونے کی وجہ سے اس میں آبی بخارات اپنے اندر سمونے کی اضافی خصوصیت بھی پیدا ہوجائے گی۔ گرمی کی وجہ سے پانی میں بخارات بننے کا عمل بھی تیز ہوگا۔ لہذا یہ بخارات، پانی پر موجود گرم ہوا میں شامل ہونا شروع ہوجائیں گے۔گرمی اور ہلکے پن کی وجہ سے یہ ہوا(بخارات سمیت) اوپر اٹھنا شروع ہوگی۔ (یاد رہے کہ کرہ ہوائی کا درجہ حرارت، ہر ایک کلو میٹر بلندی پر سات درجے سینٹی گریڈ تک کم ہوجاتا ہے) اوپر اٹھتے دوران ہوا اور اس میں موجود بخارات کا درجہ حرارت بھی کم ہوتا رہے گا، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب آبی بخارات ٹھنڈے ہوکر دوبارہ سے آبی قطروں کی شکل اختیار کرلیں گے۔پانی کے یہ قطرے بے انتہا باریک ہوتے ہیں ، اس لئے انہیں "قطرچے" (droplets)کہا جاتا ہے۔اگر ہوا میں مٹی کے ذرات وغیرہ بھی موجود ہوں تو پانی کے یہ بے حد باریک قطرے ان کے گرد جمع ہوجائیں گے۔ یہ قطرے روشنی منعکس کرتے ہیں لہذا یہ ہمیں سفید بادلوں کی شکل میں نظر آتے ہیں۔
اگر ہوا کے اوپر اٹھنے کا یہ عمل جاری رہے اور اس میں موجود قطرے مسلسل ٹھنڈے ہوتے رہیں تو ایک موقع وہ بھی آتا ہے جب کرہ ہوائی کا درجہ حرارت، پانی کے نقطہ انجماد (صفر ڈگری سینٹی گریڈ) سے بھی کم ہوجاتا ہے۔ اب پانی کے یہ قطرے ایک بار پھر اپنی شکل تبدیل کرتے ہیں اور برف کے باریک باریک ٹکڑوں میں بدل جاتے ہیں۔ یہاں ایک بات اور بھی بتانی ضروری ہے : بلندی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہوا کے دباؤ میں کمی اور رفتار میں تیزی آجاتی ہے، یعنی زیادہ بلندی پر مسلسل ہوا کے تیز جھکڑ چلتے رہتے ہیں اسی وجہ سے یہ بادل بھی مسلسل حرکت میں رہتے ہیں اور ان میں موجود قطرے یا برفیلے ٹکڑے نہیں گرتے ۔۔۔یہاں تک کہ بادل اس سے بالکل سیر((Saturateہو جاتے ہیں۔ بادلوں کے بننے کے ساتھ ساتھ ان کے حرکت کرنے کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔یہاں بھی ہواؤں کی کارفرمائی ہمیں نظر آتی ہے۔
گرم ہوا ہلکی ہوتی ہے اور اوپر اُٹھتی ہے، لہذا اس کے اُٹھنے کی وجہ سے وہاں پر کم دباؤ والی کیفیت پیدا ہوتی ہے آس پاس کی ہوائیں کم دباؤ کا ازالہ کرنے کے لئے اس جانب حرکت کرتی ہیں اور یوں قدرت کے ایک طے شدہ قانون کے تحت گرم ہوا کی جگہ ٹھنڈی اور تازہ ہوا آجاتی ہے۔ اب آپ خود ہی غور فرمائیے کہ نئی آنے والی ہوا کے ساتھ بادل بھی ہوسکتے ہیں اور یہی بادل آگے چل کر بوندا باندی، موسلا دھار بارش، طوفانی بارش یا طوفان بادوباراں کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔ یہ بھی ایک عام مشاہدے کی بات ہے کہ ہلکے اور پتلے بادلوں کی بہ نسبت "تہہ بہ تہہ" کثیف بادلوں سے بارش برسنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پہاڑکی سطح زمین سے ہزاروں میٹر کی بلندی پر ہوتے ہیں اسی وجہ سے وہاں بارش اور برفباری کے امکانات (میدانی علاقوں کے مقابلے) زیادہ ہوتے ہیں۔
سوچنے اور غور و فکر کرنے کا مقام ہے اگر قوانینِ قدرت اپنی موجودہ شکل میں نہ ہوتے، گرم ہوا ہلکی اور سرد ہوا بھاری نہ ہوتی، گرمی کے باعث بخارات بننے کا عمل تیز نہ ہوتا، ٹھنڈک پر تکثیف (Condensation) نہ ہوتی، بلندی پر جاتے ہوئے ہواؤں کا دباؤ کم اور حرکت تیز نہ ہوتے، ہوا زیادہ دباؤ سے کم دباؤ والے خطے کی سمت حرکت نہ کرتی تو کیا ہم اس سکون اور اطمینان کے ساتھ زمین پر جی رہے ہوتے؟ کیا اپنے اطراف میں نظر دوڑا کر ہمیں یہ یقین نہیں ہوتا کہ ہمارے خالق نے ہماری تخلیق بہت سوچ سمجھ کر کی ہے؟ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں تو ہر لمحے اور ہر ساعت ہمارے سامنے موجود رہتی ہیں ضرورت صرف حساس فکر کی ہے جو انہیں محسوس کرسکےاور اپنے خالق کے سامنے سجدہ ریز ہوسکے۔


Post a Comment

1 Comments

  1. بہت اچھا مضمون ہے شکریہ

    ReplyDelete

Thank you. We appreciate your valuable feedback.

ebay paid promotion