پارلیمینٹ
کے مشترکہ سیشن میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس اجلاس کو صرف
پاکستانی قوم ہی نہیں بلکہ کشمیری اور پوری دنیا بھی دیکھ رہی ہے۔ جب ہماری حکومت
آئی تو ہماری ترحیج پاکستان میں غربت ختم کرنا تھی اور اس کیلئے فیصلہ کیا گیا کہ
تمام ہمسایوں کیساتھ تعلقات ٹھیک کئے جائیں کیونکہ پاکستان 15 سال دہشت گردی
کیخلاف جنگ میں رہا اور جب تک عدم استحکام رہتا ہے تو سرمایہ کاری اور ترقی کے عمل
پر اثر پڑتا ہے اور لوگوں کو غربت سے نہیں نکالا جا سکتا۔
وزیراعظم
نے کہا کہ میں نے وزیراعظم بنتے ساتھ ہی ہندوستان سے کہا کہ ایک قدم ہماری طرف
آئیں ہم دو قدم آپ کی طرف آئیں گے، افغانستان سے کہا کہ ماضی کی غلط فہمیاں دور کر
کے نئے دور کا آغاز چاہتے ہیں، ایران گیا، چین سے ہمیشہ تعلقات اچھے رہے ہیں، پھر
باقی ملکوں میں بھی گیا اور آخر میں امریکہ کا دورہ بھی یہ ایک کوشش تھا کہ ماضی
میں مسائل کو ختم کریں تاکہ پاکستان کو استحکام ملے اور یہ آگے بڑھے۔
مودی نے کہا
کہ ہمارے خدشات ہیں کہ آپ کے پاس ٹریننگ کیمپس ہیں جس پر میں نے کہا کہ آرمی پبلک
سکول کا جب تکلیف دہ سانحہ ہوا تو تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر آئیں اور نیشنل
ایکشن پلان پر دستخط کئے گئے جس میں فیصلہ کیا گیا کہ کوئی بھی مسلح گروپ پاکستان
سے نہیں چلے گا۔ ہم نے بھارت کیساتھ مذاکرات شروع کرنے کی کوشش کی تو احساس ہوا کہ
وہ دلچسپی نہیں رکھتے اور پھر پلوامہ کا واقعہ ہو گیا، اس پر بھی بھارت کو سمجھانے
کی پوری کوشش کی اس میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے لیکن ہمیں تب بھی احساس ہو
گیا کہ ان کے ہاں الیکشن ہیں اس لئے وہ پاکستان کو سکیٹ بورڈ بنا کر ناصرف کشمیری
عوام پر کئے جانے والے ظلم و ستم سے دنیا کی نظریں ہٹانا چاہتا ہے بلکہ الیکشن
جیتنے کیلئے وار ہسٹیریا بھی پیدا کر رہا ہے۔
وزیراعظم
کا کہنا تھا کہ بھارت نے پلوامہ حملے کے بعد ڈوزئیر بعد میں بھیجا اور جہاز پہلے
بھیج دئیے لیکن الحمد اللہ پاکستان نے زبردست جواب دیا، ہم نے سوچا کہ ہندوستان
میں الیکشن ہو جائیں پھر بات چیت شروع کریں گے، الیکشن ہو گئے پھر کوشش کی اور
مجھے یاد ہے کہ ایک کانفرنس میں جب ان کا رویہ دیکھا تو فیصلہ کیا کہ یہ ہماری امن
کی کوششوں کو کمزوری سمجھ رہے ہیں اور پھر فیصلہ کیا کہ اس سے آگے بات نہیں کریں
گے، امریکی صدر سے ملاقات میں اسی معاملے کو سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ برصغیر کے
ایک ارب لوگ یرغمال بنے ہوئے ہیں، آپ ثالثی کریں اور پھر ردعمل آپ کے سامنے تھا،
اب بھارت نے کشمیر کیساتھ جو کچھ کیا ہے، یہ ایک دن کی منصوبہ بندی نہیں بلکہ یہ
ایک نظریہ ہے جو آر ایس ایس نے پیش کیا تھا۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو
ہندوستان سے نکالیں گے اور ہندوستان صرف ہندوﺅں کا
ہو گا، ان کا نظریہ مسلمانوں کیلئے متعصب ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے
500 سے 600 سال تک یہاں حکومت کی اور جب انگریز جا رہا تھا تو انہوں نے سوچا کہ اب
وقت آ گیا ہے کہ مسلمانوں کو دبا کر رکھیں۔ آج ہم قائداعظم کو خراج تحسین پیش کریں
گے کیونکہ وہ پہلے انسان تھے جنہوں نے اس نظرئیے کو دیکھ لیا، قائداعظم محمد علی
جناح ہندو مسلم یونٹی کے سفر سمجھے جاتے تھے، ان کی ساری زندگی ایسی تھی نہیں کہ
وہ کسی کے دین کی وجہ سے تعصب رکھیں، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیسے قائداعظم جیسا
انسان جو سب سے اوپر تھے، نے آخر میں یہ فیصلہ کیوں کیا کہ پاکستان بننا چاہئے، جب
وہ کانگریس سے علیحدہ ہوئے تو مسلمانوں سے کہتے رہے کہ تمہیں نہیں پتہ کیا ہونے جا
رہا ہے، تم انگریز کی غلامی کے بعد ہندو راج کی غلامی کرو گے، ہمیں لوگوں کو بتانا
چاہئے کہ وہ کتنا بڑا ذہن تھا جو سمجھ بیٹھا تھا کہ گیم کس طرف جا رہی ہے۔ اگر
1937ءکے انتخابات میں سب کچھ سامنے نہیں آتا تو پاکستان نہ بنتا، اس وقت سارے
مسلمانوں کو عملی طور پر نظر آ گیا کہ جو قائداعظم کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے۔
وزیراعظم
نے کہا کہ موجودہ بی جے پی کی حکومت گوشت کھانے والوں کو لٹکا دیتی ہے اور لوگ
انہیں مار دیتے ہیں، مسیحی برادری کیساتھ جو کچھ انہوں نے کیا، یہ ان کا نظریہ ہے،
ان کے فاﺅنڈنگ فادرز کہہ بیٹھے تھے کہ
ہم ان سے مختلف ہیں اور اہم ہیں۔ کشمیر میں انہوں نے اپنے نظرئیے کے مطابق کام کیا
حالانکہ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے ناصرف ملکی بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف
ورزی کی ہے، بھارت کا یہ اقدام جموں و کشمیر کے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے،
اقوام متحدہ کی قراردوں کے خلاف ہے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں
کیخلاف ہے، شملہ معاہدے کے خلاف ہے اور جنیوا کنونشن کے خلاف ہے۔ یہ کشمیریوں کی
تحریک آزادی کو اب مزید دبانا چاہتے ہیں کیونکہ یہ انہیں اپنے برابر کا انسان نہیں
سمجھتے کیونکہ اگر اپنے برابر سمجھتے تو کوئی جمہوری طریقہ اختیار کرتے مگر یہ
طاقت کا استعمال کر رہے ہیں، بھارت انہیں کچلنے کی کوشش کرے گا اور جب ایسا ہو گا
تو پر ردعمل بھی آئے گا اور پلوامہ جیسے واقعات بھی ہوں گے۔ میں آج پیش گوئی کرتا
ہوں کہ اگر ایسا کچھ ہوا تو یہ پھر الزام پاکستان پر لگائیں گے۔
وزیراعظم
عمران خان نے کہا کہ مجھے مجھے اب خوف ہے کہ اب بھارت کشمیر میں کشمیریوں کی تعداد
کم کر کے دیگر لوگوں کو بسائے گا تاکہ کشمیری اقلیت میں آ جائیں اور غلامی میں دب
جائیں۔ مجھے ان میں تکبر نظر آتا ہے جو ہر نسل پرست میں ہوتا ہے، اگر پلوامہ جیسا
کچھ ہوا تو یہ ردعمل دیں گے اور پھر ہم جواب دیں گے کیونکہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا
کہ یہ پاکستان کے اندر حملہ کریں اور ہم جواب نہ دیں۔ اگر ایسا ہوا تو پھر بات
روائتی جنگ کی جانب چلی جائے گی اور اگر جنگ ہوئی تو یہ ہمارے خلاف بھی جا سکتی ہے
اور ہمارے حق میں بھی جا سکتی ہے۔ اگر جنگ ہمارے خلاف گئی تو دو آپشنز ہوں گے کہ
ہم ہاتھ کھڑے کر لیں یا پھر ٹیپو سلطان کی طرح خون کے آخری قطرے تک لڑیں۔ ایمان
والا انسان موت سے نہیں ڈرتا، اس کو صرف اپنے رب العالمین کو خوش کرنے کا لالچ
ہوتا ہے اور وہ خوف میں فیصلے نہیں کرتا، ہمیں انسانوں کی فکر ہے کیونکہ ہمارا دین
انسانیت کا درس دیتا ہے، ہم دنیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ معاملے کو دیکھیں گے
کیونکہ اب اگر دنیا نے کچھ نہیں کیا تو پھر معاملہ آگے بڑھ جائے گا۔