Write & Win upto Rs: 1000 in a Lucky Draw

Visit, Comment & Share to Get Your Eidi


اس پوسٹ کے آخر میں کمنٹ کریں اور شیئر کرکے حاصل کرسکتے ہیں فری موبائل بیلنس
یہ قربانیاں اس کا لُب نہیں۔ پوست ہیں ۔ رُوح نہیں جسم ہیں۔ اس سہولت اورآرام کے زمانے میں ہنسی خوشی سے عید ہوتی ہے۔ اور عید کی انتہا ہنسی خوشی اور قسم قسم کی تعیّشات قرار دیئے گئے ہیں۔ عورتیں اسی روز تمام زیورات پہنتی ہیں۔ عمدہ سے عمدہ کپڑے زیب تن کرتی ہیں۔ مرد عمدہ پوشاکیں پہنتے ہیں اور عمدہ سے عمدہ کھانے بہم پہنچاتے ہیں۔ اور یہ ایسا مسرت اور راحت کادن سمجھا جاتا ہے کہ بخیل سے بخیل انسان بھی آج گوشت کھاتا ہے ۔۔۔گو اور لوگ بھی کمی نہیں کرتے۔ الغرض ہر قسم کے کھیل کود، لہو ولعب کا نام عید سمجھا گیا ہے مگر افسوس ہے کہ حقیقت کی طرف مُطلق توجہ نہیں کی جاتی“۔
          ”حضرت ابراہیم علیہ السلام میں یہ استقامت ہی تو تھی کہ خواب میں حکم ہوا کہ تو بیٹا ذبح کر ، حالانکہ خواب میں تعبیر اور تاویل بھی ہوسکتی تھی، مگر خدا تعالیٰ پر ایسا ایمان اور دل میں ایسی قوت ہے کہ یہ حکم پاتے ہی معاً تعمیل کے واسطے تیار ہوگئے اور اپنے ہاتھ سے نوجوان بیٹے کو ذبح کرنے لگے۔



 آج کل اگر کسی کا بچہ امراض میں مبتلا رہ کر مرجائے تو خدا تعالیٰ کی نسبت ہزار ہا شکوک پیدا ہوجاتے ہیں اور شکوہ و شکایت کے لئے زبان کھولتے ہیں لیکن ایک ابراہیم ہے کہ بیٹے کی محبت کو کچل ڈالا اور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے کو تیار ہوگیا۔ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرتا“۔






          ”حضرت ابراہیم نے جس قربانی کا بیج بویا تھا اور مخفی طور پر بویا تھا، آنحضرت ﷺ نے اس کے لہلہاتے کھیت دکھائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے ذبح کرنے میں خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں دریغ نہ کیا۔ اس میں مخفی طورپر یہی اشارہ تھا کہ انسان ہمہ تن خدا کا ہوجائے ۔ اور خدا کے حکم کے سامنے اس کی اپنی جان، اپنی اولاد، اپنے اقربا و اعزا ء کا خون بھی خفیف نظر آوے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں جو ہر ایک پاک ہدایت کا کامل نمونہ تھے، کیسی قربانی ہوئی۔ خونوں سے جنگل بھر گئے۔ گویا خون کی ندیاں بہہ نکلیں ۔ باپوں نے اپنے بچوں کو ، بیٹوں نے اپنے باپوں کو قتل کیااور وہ خوش ہوتے تھے کہ اسلام اور خدا کی راہ میں قیمہ قیمہ اور ٹکڑے بھی کئے جاویں تو ان کی راحت ہے ۔



 مگر آج غور کرکے دیکھو کہ بجز ہنسی اور خوشی اور لہو ولعب کے روحانیت کا کونسا حصہ باقی ہے۔ یہ عید اضحی پہلی عید سے بڑھ کر ہے اور عام لوگ بھی اس کو بڑی عید تو کہتے ہیں مگر سوچ کر بتلاؤ کہ عید کی وجہ سے کس قدر ہیں جو اپنے تزکیہٴ نفس اور تصفیہٴ قلب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ اور روحانیت سے حصہ لیتے ہیں۔ اور اُس روشنی اور نور کو لینے کی کوشش کرتے ہیں جو اس ضُحٰی میں رکھا گیا ہے“۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
”﴿لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآوٴُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ﴾
یعنی دلوں کی پاکیزگی سچی قربانی ہے، گوشت اورخون سچی قربانی نہیں۔ جس جگہ عام لوگ جانوروں کی قربانی کرتے ہیں خاص لوگ دلوں کو ذبح کرتے ہیں۔






﴿لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَاوٴُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ﴾(الحج:۸۳) یعنی خدا کوتمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاری تقویٰ اس کو پہنچتی ہے یعنی اس سے اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جاؤ۔ اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہوجاؤ۔ جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے“۔


آپ بھی لکھیں اور ہمیں بھیجیں کیونکہ آپ کا نام ہی آپ ہی پہچان ہے

ebay paid promotion