ہلاکت خیز برڈ فلو پاکستان کی دہلیز پر!
تحقیق و تحریر:ڈاکٹر سید صلاح الدین قادری
ایک
تمہید۔۔۔۔غیر دل پذیر
زیر
نظر مضمون کی تمہید سن کر ایک صاحب نے زوردار قہقہ لگایا اور مجھ سے پوچھا(اس
گفتگو اور 27 دسمبر 2007 کی رات نے میرے ذہین کے موجود کئی سوالوں کے جوابات دئیے)"یہ
بتاو کہ تمہارے اس برڈفلو سے دنیا بھر میں اب تک کتنے افراد متاثر ہوئے ہیں؟"
میں
نے جواب دیا،"2003سے27دسمبر2007تک کل 342 افراد اس فلو سے متاثر ہوئے۔"
پھر
انہوں نے پوچھا"ان میں سے ہلاک کتنے ہوئے؟"
میں
نے بتیا کہ اسی عرصے میں برڈفلو سے کل 211 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
ایک
زور دار قہقہہ بلند ہوا۔۔۔۔"بھائی!پانچ سال میں برڈ فلو سے کل 211 افراد ہلاک
ہوئے۔اس سے کہیں زیادہ ہلاکتیں ایک سال کے دوران بم دھماکوں کے نتیجے میں اس ملک
میں ہوئی ہیں۔اس سے کہیں زیادہ افراد لال مسجد میں مارئیے گئے۔پاکستان میں اس سےکہیں
زیادہ لوگ ہر سال ٹریفک کے حادثات میں ہلاک ہوتے ہیں۔اسی سے کہیں زیادہ لوگ ہر سال
بلوے میں مارے جاتے ہیں۔۔۔۔
"جب
اس قوم کا ہر فرد موت سے اس قدر قریب ہے کہ اسے یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ
کل بم دھماکے میں مرے گا یا اپنے ہی اسے ہلاک کردیں گے،تو اس آنے والے کل سے
وہ کیا خوفزدہ ہوگا۔
آپ
اتنے پڑھے لکھے ہیں،میں آپ کو یہ کس طرح سمجھاوں۔آسان بات یہ ہے کہ گولی یا بم
دھماکے سے مرنے کی صورت میں مہلت نہیں ملتی جبکہ تمہارے برڈفلو سے اس بات کی تو
امید ہے کہ موت اپنوں کے درمیان آئے گی پھر موت کی ذمہ داری ایک مسلمان پر تو نہیں
ہوگی۔ذرا اس پر سوچیئے۔"
اس
گفتگو کے بعد مجھے اس شخص پر غصہ تھا۔مگر
میں جس کسی کو برڈفلو کے بارے میں آگاہ کرتا،وہ مرغی سستی ہونے کی خوشی کا اظہار ضرور کرتا۔
ہر
شخص مستقبل سے بے خبر،حال کی صورت حال پر خوش تھا۔مگر سانحہ لیاقت باغ اور اس کے
بعد ملک بھر میں پھوٹ پڑنے والے فساد نے حالات اس قدر سنگین بنادئیے کہ یہ مضمون
گلوبل سائنس کے دفتر پہنچا نا تو
درکنار،پانچ کلو میڑ کے ٖفاصلے سے خود میرا ہی گھر پہنچناناممکن بنا دیا۔
سڑک
پر چلتی ہوئی گاڑیاں،ہوائی فائرنگ اور چند ماوں کا اپنے بچوں کو چمٹائے ادھر سے
ادھر بھاگنا کہ کسی صورت کوئی راستہ مل جائے اور وہ اپنے جگر گوشوں کو بحفاظت گھر پہنچا سکیں۔نفسا نفسی کا
وہ عالم کہ خدا کی پناہ! میرے ذہین میں اس شخص کی گفتگو گونجنے لگی۔رات گھر سے
باہر محفوظ مقام پر ہونے کے باو جود نیند نہ آسکی۔موت میرے سامنے رقصاں تھی۔کراچی
میں یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔
گولیوں
کے درمیان سے کئی مرتبہ گزرگئے مگر اس قدر کوفت نہیں ہوئی جتنی 27 دسمبر کی رات
اس ماں کو دیکھ کر ہوئی۔کسی گاڑی کے لئے
راستہ نہیں تھا۔وہ عورت تین بچوں کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے،کسی طور پر اپنی منزل تک
پہنچنا چاہتی تھی۔
اس
کے لیے واحد محفوظ راستے پیدل سفر ہی تھا۔نہ جانے
وہ کس طرح گھر پہنچی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔اورپہنچی بھی ہوگی یا نہیں۔
میرے
ذہین میں بات کا واضح جواب تھا کہ برڈفلو کا خطرہ اس قوم کو ڈرا نہیں سکتا۔برڈفلو
سے تو وہ لوگ ڈریں جنہوں نے موت کو اتنے قریب سے نہ دیکھا ہو۔اللہ تعالی ہم پر
اور ہماری قوم پر رحم فرمائے۔یہ مضمون آپ
صرف حصول معلومات کے لیے پڑھ لیجئے۔اس کے سوا میں اور کیا کہہ سکتا ہوں۔
خدا
وہ وقت نہ لائے کہ۔۔۔
حمل کے آخری مہینے میں ایسے فوٹو شوٹ کرائے کہ آپ توبہ توبہ کریں گے
اگر
موجود صدی میں دنیا کو کوئی نیا فلو وائرس یا کسی پرانے فلووائرس کی تبدیل شدہ
صورت اپنی لپیٹ میں لے لے تو اس کی وبائیت،اب تک پھیلنے والے فلو کی وبائیتوں سے
کہیں بڑھ کر ہوگی۔اس کی سب سے اہم وجہ اس وبا کے پھیلنے کی سرعت ہوگی۔قیاس کیا
جاتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں
رونما ہونے والی فلو کی وبا،پوری دنیا کو صرف چار یوم کے اندر اندر اپنی
لپیٹ میں لے لے گی۔اس مختصر عرصے میں جس تیز رفتاری سے انسانی آبادی متاثر ہوگی،اس
کے لئے بڑی مقدار میں ویکسین کی تیاری ممکن نہ ہوگی۔
اگر
وائرس ویکسین کی تیاری جنگی بنیادوں پر بھی کی جائے،تب بھی پوری دنیا کو اس قدر
جلد ویکسین دستیاب نہ ہوسکے گی۔فلو کی وبا کے باعث اسپتال مریضوں سے بھر جائیں گے
عملہ بھی اس وبا سے متاثر ہوگا۔یوںویکسین کی دور دراز علاقوں تک بروقت دستیابی نا
ممکن ہوجائے گی۔ان تمام وجود کے باعث یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ دنیا کی صرف ایک
تہائی آبادی اس وبائیت کے بعد بچ سکے گی۔
یہ
منظر کسی فلم کا نہیں،بلکہ یہ تمام اندازے اور قیاسات ماضی کی وبائیت کی وجودہ اور
طبعی میدان میں موجودہ استعداد کی بنیاد پر اخذ کئے گئے ہیں۔1918میں فلو کی
عالمگیر وبا کی وجہ یہ تھی کہ اس وائرس نے پرندوں سے انسانوں میں منتقل ہونے کے
بعد،ایک سے دوسرے انسان کو متاثر کرنے کی زبردست صلاحیت حاصل کرلی تھی۔بیسویں صدی
کے اوائل میں ذرائع آمدورفت کی تیز رفتاری نی کچھ ہی عرصے میں اس بیماری کو ایک
عالمی وبا بنا دیا۔
آج
کی دنیا۔1918کی نسبت کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہوچکی ہے۔ذرائع آمدورفت اتنے تیز رفتار
ہوچکے ہیں کہ صرف چوبیس گھنٹے میں دنیا کہ ایک کونے سے دوسرے کونے تک جا پہنچنا
عام سی بات ہوگئی ہے۔لیکن ساتھ ہی ساتھ طبی تحقیق بھی اسی قدر تیزی سے ترقی کی
منازل طے کر رہی ہے آج کسی وائرس کی شناخت بہت جلد ممکن ہے۔ہم ہزاروں وائرسوں کی
ساخت سے واقف ہیں،ہمیں ان کی جینیات کا علم بھی ہے۔
تو
پھر کس بات کا خوف ہے؟کیا دنیا بھر کے محققین مل کر بھی اس وبا کو قابو نہ کر
پائیں گے؟
اب
تک کی صورت حال یہ ہے کہ فلو کا باعث بننے
والے بعض وائرس اس قابل تو ہو گئے ہیں کہ پرندوں سے انسانوں میں منتقل ہو جائیں
اور انہیں متاثر کرسکیں،
تاہم
ابھی ان میں یہ صلاحیت پیدا نہیں ہوئی ہے کہ
وہ ایک سے دوسرے انسان کو بھی
متاثر کرسکیں اور فلو کی وبائیت میں اضافے کا باعث بن سکیں۔لیکن،اس سارے قصے میں
تشویش کا پہلو یہی ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی دن ایسا ہوگیا تو کیا ہوگا؟
اگر
کسی برڈ فلو وائرس نے خود کو تبدیل کرتے
کرتے ایک سے دوسرے انسان کو متاثرکرنے کی
صلاحیت بھی پیدا کر لی ہے تو یقینا وہ
قیامت صغری سے کم برپا نہ کرے گا۔خاکم
بدہن،کہ تب ہمیں 1918کے فلو سے زیادہ خطرناک حالات درپیش ہوں گے۔تیز رفتار ریل
گاڑیوں اور مسافر بردار جیٹ طیاروں کی بدولت یہ وائرس صرف ایک ہفتے کے اندر ہی
پوری دنیا میں پھیل جائے گا۔طبی تحقیق کی جدید ترین سہولت کے باعث یہ تو ممکن ہے
کہ اس وائرس کو جلد شناخت کرلیا جائے ،مگر اس کے خلاف موثر ویکسین کی تیاری میں کم
از کم چار ہفتے درکار ہوں گے۔۔۔۔۔اور تب تک یہ فلو وائرس اپنی تباہ کاریاں پھیلا
چکا ہوگا ،اور دنیا کی بیشتر آبادی اس سے متاثر ہوچکی ہوگی۔اتنے مریض ہوں گے کہ انہیں ہسپتالوں میں رکھنے کی
جگہ بھی موجود نہ ہوگی۔
یہ
صورت حال غریب ممالک میں اور بھی زیادہ گھمبیر ہوگی کہ جہاں طبی سہولت کا ویسے ہی
فقدان ہے۔
اگر
اس تباہی کے باوجود بھی بڑی مقدار میں ویکسین کی تیاری ممکن ہوگی تو اسے کس طرح
دنیا بھر کے انسانوں کے استعمال کیلئے ہر جگہ پہنچایا جا سکے گا؟
یہ تقریبا ناممکن صورت حال ہوگی۔اس کیفیت میں جتنے
لوگوں کے فلو سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے، ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہوگی کہ نہ صرف
فلو ویکسین،بلکہ دوسری ضد حیوی(اینٹی بایوٹک)ادویہ بھی کم پڑجائیں گی۔اور یوں جو
لوگ فلو سے متاثر ہوکر اس کا مقابلہ کررہے ہوں گے،وہ ادویہ کے بغیر کس طرح نمونیا
اور دیگر بیماریوں کا مقابلہ کر پائیں گے؟
یہ
وہ خوفناک حقیقت ہے کہ جس سے عالم پریشان ہے۔اس کے تدارک کا واحد راستہ یہ ہے کہ
جہاں کہیں سے بھی برڈ فلو وائرس سے متاثرہ پرندے یا جانور سے کسی انسان کے متاثر
ہونے کی خبر ملے،اس وائرس کو وہیں محصور کردیا جائے تاکہ وہ اپنے اندر اتنی
ہی تبدیلی پیدا نہ کرسکے کہ ایک سے دوسرے
انسان کو متاثر ہونے کہ قابل ہوسکے۔
عالمی
ادارہ صحت اس وقت دنیا بھر میں اس متوقع برڈفلو وائرس کی وبا کو روکنے کے لئے
کوشاں ہے اور دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی اس قسم کی کوئی اطلاع ملتی ہے کہ کسی نئے
وائرس نے انسانوں کو متاثر کیا ہے،تو اس کے پھیلاو کے امکانات کو ہر ممکن طور پر
ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
1997ء
میں جب دنیا کو پہلی بار اس بات کا علم ہوا کہ H5N1نامی
برڈفلو وائرس،مرغیوں سے انسانوں کو متاثر کرہا ہے تو پوری دنیا میں خطرے کی گھنٹی
بج
گئی۔
ہانگ
کانگ میں لاکھوں مرغیاں تلف کر دی گئیں۔اس وقت سے لے کر آج تک دنیا میں جہاں کہیں
بھی H5N1وائرس مرغیوں کو متا ثر کرتا ہے،فوری طور پر ان مرغیوں کو
تلف کردیا جاتا ہے۔مگر یہ وائرس ہے کہ پوری دنیا کے77ممالک میں پہنچ چکا ہے اور ہر
سال اس سے متاثرہ مریضوں اور ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہی ہورہا
ہے۔
اس
برڈفلو کا اخوف 2004ء میں میڈیا نے پاکستان میں پھیلا دیا تھا، مگر اس وقت تک
پاکستان میں یہ وائرس موجود نہیں تھا۔2006ء میں پاکستان میں اس وائرس نے پہلی بار
پولٹری کی صنعت کو متاثر کیا۔اس وقت لوگوں نے اس خبر کو اہمیت نہ دی،اور آخر کار
15 ستمبر 2007ءکو پہلی بار ایبٹ آباد میں H5N1وائرس کے باعث ایک
شخص کی ہلاکت بھی ہوگئی۔مگر میڈیا اور عوام،دونوں نے ہی اس خبر کو اہمیت نہ دی۔
فلو
کیا ہے؟
فلو
کی تعریف یوں بیان کی جاتی ہے؛"انفلوئنز وائرس سے پیدا ہونے والی بیماری جس
میں نظام تنفس متاثر ہوتا ہے۔اس کی ظاہری علامات میں درد سر،عضلاتی درد،بخار،ناک
کا بہنا،زکام اور شدید کمزوری شامل ہیں۔"
انفلوئنز
اوائرس کو تین اقسام میں تقسیم کیا گیا
ہے:
1۔انفلوئنزا
اے (A)وائرس؛
2۔انفلوئنزابی(B)وائرس؛
3۔انفلوئنزاسی(C)وائرس۔
انفلوئنزااےوائرس
انفلوئنزاوائرس
کی یہ قسم پرندوں میں موجود ہوتی ہے۔آبی پرندوں،خاص کر بطخوں کی آنتوں میں یہ
وائرس موجود ہوتے ہیں اور ان میں کسی قسم کی بیماری کی علامات ظاہر کئے بغیر ا ن
کے فضلے کے ساتھ خارج ہوتے رہتے ہیں جس سے دیگر پرندے متاثر ہوتے ہیں۔
پولٹری
کی صنعت ٌپر ان کا بطور خاص حملہ ہوتا ہے۔انفلوئنزااے وائرس میں ہونے والی جینیاتی
تبدیلیاں اسے بعض اوقات اس قابل بھی بنا دیتی ہیں کہ یہ دیگر حیوانات مثلاً
گھوڑے،وھیل،سیل،سور،کتے،بلی اور انسان کو بھی متاثر کرسکے۔
انفلوئنزااے
وائرس کا جینیاتی مادہ آراین اے ہوتا ہے۔آراین اے پر مبنی وائرس میں سب سے بڑی
قباحت یہ ہے کہ اگر نئے وائرس کی تیاری کے مراحل میں کسی وجہ سے کوئی تبدیلی رونما
ہوجائے تو وہ درست نہیں ہو پاتی۔ڈی این اے کی نقل سازی میں ایسے خامرے موجود ہوتے
ہیں جو غلطی کے احتمال پر اسے درست کرنے
کی صلاحیت رکھتے ہیں،جبکہ آراین اے کیلئے جینیاتی غلطیوں یا تغیرات کو درست کرنے
والا نظام موجود نہیں ہوتا ۔لہذا،آراین اے پر مبنی وائرس میں تیزی سے جینیاتی
تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔
اس
قسم کے وائرس کے بیرونی غلاف پر دو اقسام کے پروٹین موجود ہوتے ہیں،جن کی بنیاد پر
ان وائرس کی اقسام اورذیلی اقسام کا تعین کیا
جاتا ہے۔ان میں سے ایک ہیما گلوٹینین(Hemagglutinin)ہےجسےHaیا پھر Hسےظاہر کرتے ہیں۔یہ پروٹین،وائرس
کو میزبان کے خلئے سے جڑنے میں مدد دیتا ہے۔دوسری قسم کا پروٹین نیورامینیڈیز(Neuraminidase)کہلاتا ہے،اور
اسے NaیاNaسےظاہر کرتے ہیں۔یہ وائرس کے جینیاتی مادے کو میزبان کے
خلئے کے اندر منتقل کرنے میں مدددیتا ہے۔
انفلوئنزا
اے وائرس میںHکی سولہ اقسام اورNکی نو اقسام اب تک معلوم کی جاچکی
ہیں۔یہی وہ پروٹین ہیں کہ کی مختلف تراکیب کو بنیاد بناتے ہوئے انفلوئنزاوائرس کی
مختلف اقسام بیان کی جاتی ہیں جیسے کہ H1N1،H1N2اور
H5N1وغیرہ۔انسانوں میں وبائی صورت پیدا کرنے والی انفلوئنزااے کی
اقسام میںH1،H2اورH3قابل
ذکر ہیں۔
آپ بھی لکھیں اور جیتیں ایک ہزار روپے تک موبائل بیلنس
مثلاً1918ءمیں
فلو کی وبا کا ذمہ دار H1N1وائرس تھا۔
انفلوئنزااے
اقسام کے وائرسوں کو انسانوں میں مہلک وبائی صورتحال پیدا کرنے کا ذمہ دار مانا
جاتا ہے۔اب تک فلو کی جتنی بڑی وبائیں دیکھی گئی ہیں،ان تمام کی وجہ کوئی نہ کوئی
انفلوئنزااے وائرس ہی تھا۔