پاکستان کا قومی پرندہ
از:محمد مجید ارشد خان
اللہ
تعالی نے اس کرہ ارض میں انواع و اقسام کے جاندار پیدا کئے ہیں۔کہیں خوبصورت اور
دلکش پھول ہمارا دل لبھاتے ہیں تو کہیں دلربا اور
محسور کن آوازوں کے مالک پرندے ہمیں حیران کر دیتے ہیں۔خوشبووں اور رنگوں
کی اس دنیا میں پرندوں کی تقریبا 8900اقسام پائی جاتی ہیں۔انہی میں پاکستان کا
قومی پرندہ"چکور"بھی شامل ہے۔
اس
پرندے کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس کا وطن برصغیر، ایران اور افغانستان ہے۔تا
ہم یورپی اقوام نے چکور کو اپنے دیس میں بسانے کیلئے بڑی تگ ودو کی ہے۔1893ءمیں
ڈبلیواوبلیسیڈال وہ پہلا شخص تھا جو کراچی سے چکور کے پانچ جوڑے شمالی امریکہ لے
کر پہنچا۔بعدازاں 1951ءمیں ترکی سے چکور منگوائے گئے اور انہیں
ایریزونا،کیلیفورنیا اور نبراسکا وغیرہ میں بسایا گیا۔1920ءمیں نیوزی لینڈ میں
چکور لائے گئے،مگر وہ وہاں کے موسمی حالات کا مقابلہ نہ کرسکے۔البتہ،کوشش جاری
رہیں اور بالآخر 1926ء میں کوئٹہ سے ایرانی نسل کے 19 چکور نیوزی لینڈ میں بسائے
گئے۔
آئیے!چکور کے وطن پر ایک نظر ڈالتے ہیں جن میں نیوزی لینڈ،یونان،اٹلی،شمالی امریکہ،ماونا کیا(ہوائی)،فرانس اور اسپین شامل ہیں۔تاہم پاکستان،افغانستان، بھارت اور نیپال اس پرندے کے اصل وطن ہیں۔عقاب کے بعد چکور وہ دوسرا پرندہ ہے جو اونچے اور فلک بوس پہاڑوں کا عا شقی ہے۔2،500فٹ سے لے کر10000فٹ بلندی تک اس کا مسکن ہیں اور حسین وادیاں،برف پوش پہاڑ،بھرے جنگلات اس کی کمزوری ہیں۔چکور کوب انگریزی میں،راک پیٹرج"کہتے ہیں،جبکہ فٹ بلندی تک اس کا مسکن ہیں اور حسین وادیاں،برف پوش پہاڑ،بھرے جنگلات اس کی کمزوری ہیں۔چکور کوب انگریزی میں،راک پیٹرج"کہتے ہیں،جبکہ اس کا سائنسی نام Alectoris graecaہے۔اس کی ستائیس سے زائد انواع ہیں مگر سرخ ٹانگوں والا ہندی(انڈین)چکور پوری دنیا میں مشہور ہے۔اسے چکور کے علاوہ کئی ناموں مثلاً کبک،کیلکک،کاوکاو،چکرو،زارکر،چکار اور چکوری وغیرہ سے بھی پکارا جاتا ہے۔
نر
چکور کا وزن 19 سے 27 اونس؛اورمادہ کا وزن ااونس تک ہوتا ہے۔جہاں چکور کی کئی اور
خوبیاں ہیں،وہیں یہ محسور کن آوازوں کا بھی مالک ہے۔یعنی،نر اور مادہ چکور ملتے
ہیں تو اس دوران "ویٹوویٹو"(ارے بھئ یہ اقوام متحدہ والا ویٹو نہیں)کی
مخصوص آواز نکالتا ہے۔شکار کے دوران"کرکر"(نرم آواز)،غذا کھانے کے دوران
بہت تیز"ٹک ٹک،"گروہ میں ہوتو"چک چک"اور"چاک چاک"کی
آوازیں نکالتے ہیں۔
غذا
کھانے کے معاملے میں چکور بڑا با ذوق پرندہ ہے۔گھاس کے پتے،گندم،جو،جوار کے
دانے،سبب اور آلودہ وغیرہ اس کی من پسند غذا ہیں۔مادہ چکور فروری،مارچ اور اپریل
میں انڈے دیتی ہیں۔اگر اس کا گھونسلہ خراب ہو جائے فوراً دوسرا بنا لیا جاتا
ہے۔چکور کے انڈے لمبوترے،زرداوردھبےدار ہوتے ہیں۔چوزہ انڈے سے نکلنے کے بعد 12سے16
ہفتوں میں جوان ہوجاتا ہے۔
چکور
پاکستان کے فلک بوس پہاڑوں،فاٹا کے دشوار گزار علاقوں،کشمیر اور بلوچستان کے
بنجروخشک پہاڑوں میں غول در غول محوپرواز ہوتے ہیں۔
غرض
یہ کہ چکور،قدرت کی خوبصورتی کاشاہکارہے جسے یورپی ممالک میں نسل خیزی(بریڈنگ)کے
عمل سے بھی گزارا گیا ہے۔امریکہ کا سفید چکور پرواز میں لاثانی ہےاور ماہرین کے
مطابق عمان اور مسقط کا چکور"بلیک بیڈ"نایاب پرندوں میں شمار ہوتا ہے۔
خوبصورت
پرندہ ہواور اس شکار نہ ہو،یہ کیسے ممکن ہے۔پہاڑوں پر جب شدید برفباری ہوتی ہے تو
یہ معصوم پرندہ نیچے اتر آتا ہے۔
مگر اس دوران کوے،میگپائیز ،سانپ،باز،شکرے،سنہری عقاب،سرخ دُم عقاب،باب کیٹ،الو اور چوہے اس کی تاک میں رہتے ہیں۔جہاں اتنے جانور اور پرندےاس کی تاک میں ہوں،وہاں حضرت انسان بھی پیچھے رہ سکتا ہے۔چکور کت شوقین شکاری اسے کسی نہ کسی طرح ڈھونڈ نکالتے ہیں؛اور نہایت ظالمانہ طریقے سے پکڑتے ہیں۔جہاں یہ پرندہ پانی پینے کیلئے اترتا ہے،وہاں شکاری جالبچھا دیتے ہیں یا پانی میں نشہ اور ادویہ ملا دی جاتی ہیں۔
اقوام
متحدہ کے مطابق یہ پرندہ معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔چنانچہ اس وقت چکور،پہاڑوں کے بلند ترین سلسلوں یعنی
نانگا پربت،لداخ،لرالائی،ژوب،کوہ ہندکش اور کوہ سیلمان ہی میں قدرے محفوظ ہے اور
اس کے غول ساحرانہ آواز سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔