موجودہ سائنسی دور میں ہر چیز کی سچائی کا معیار سائنس کو سمجھا جاتا ہے حتیٰ کہ مذہب کی سچائی کو بھی بعض لوگ سائنس کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں ۔ انیسویں صدی میں جب مغربی دنیا میں سائنسی علوم نئے نئے متعارف ہوئے تو وہاں بھی Atheism کی ایک لہر اٹھ کھڑی ہوئی تھی جس کا نظریہ یہ تھا کہ جو چیز تجربہ سے ٹیسٹ نہیں ہوسکتی یا حساب سے ثابت نہیں ہوسکتی وہ باطل ہے۔
اب مذہبی نظریات اور روحانی تجربات نہ تو حساب کے دائرہ کار میں آتے ہیں نہ ہی کسی لیبارٹری میں قابل تجزیہ ہیں۔ چنانچہ سائنس سے مرعوب بے شمار لوگوں نے مذہب کو محض ڈھکوسلا قرار دیتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ کے وجود سے بھی انکار کردیا۔لیکن جوں جوں یہ ثابت ہونے لگا کہ سائنس بھی کوئی حتمی علم نہیں بلکہ یہ بھی بے شمار غیر ثابت شدہ مفروضوں پر قائم ہے تو بیسویں صدی کے شروع میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات مبارک سے روگردانی کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس میں اب کسی قدر کمی آنے لگی ہے لیکن سائنس نے آزادی رائے، تحقیق اور تنقید کے حق میں جو فضا پیدا کی تھی مذہب اس کی زد سے نہ بچ سکا ۔
چنانچہ مغربی سکالرز نے جب عیسائی اور یہودی مذہبی کتابوں یعنی موجودہ انجیل اور تورات کا سائنسی انداز میں تجزیہ کیا تو ان میں بے شمار غلطیاں اور بنیادی قدرتی اصولوں کے خلاف نظریات پائے گئے۔ جس کا یہ مطلب لیا گیا کہ یہ کتابیں خالق کائنات سے نہیں ہوسکتیں بلکہ اپنے وقت کے انسانوں کی تخلیق ہیں۔
چرچ کےلئے یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا ایسے میں اپنے سنبھالے کے لئے عیسائی چرچ نے نئی سوچ نکالی کہ جہاں تک سائنسی اصولوں اور مادی حقائق کا تعلق ہے یہ اسی زمانہ کے مطابق تھے۔جب یہ کتابیں لکھی گئی تھیں۔ لیکن ان کے اخلاقی ضابطے اٹل ہیں اس لئے اخلاقی اور مذہبی طور پر انجیل اور تورات وغیرہ پر اعتبار کیا جاسکتا ہے لیکن یہ توجیح لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے کافی نہ تھی۔ لہذا جدید سائنسی افکار کے زیر اثر عیسائی دنیا کی اکثریت مذہبی طور پر اب عیسائی نہیں رہی اور عیسائیت کی جگہ مغربی تہذیب نے لے لی جس کی بنیاد لادینیت ہے افسوس کی بات ہے کہ جیسے کبھی عیسائیت کو پھیلانے کے لئے وہ کوشاں تھے اب اہل مغرب، مغربی تہذیب کو بے دینی کے مذہبی جنون سے بقیہ دنیا پر نافذ کرنے کے لئے تلے ہوئے ہیں۔