دن ڈھلنے لگا قائداعظم چوکنا ہوگئے آپ نے اے ڈی سی کو فورا ریڈیو لگانے کی ہدایت کی۔
میں خبریں سننا چاہتا ہوں ۔ آپ نے حکم دیا
اے ڈی سی نیا آدمی تھا قائداعظم سے واقف نہ تھا ۔ کہنے لگا سر آپ تھک گئے ہونگے یہ کام صبح نہ کرلیں؟
قائداعظم نے برجستہ جواب دیا کہ یہ تاخیری حربے میرے ساتھ استعمال نہ کرنا دوبارہ ۔ آپ تاخیر کے سخت خلاف تھے مگر آج کل ہر فائل رکی رہتی ہے۔قائداعظم کے پاس وقت کی شدید کمی تھی لیکن لوگوں میں جذبہ تھا ، قائد نے قوم میں جذبہ بھر دیا تھا، ہمارے آج کے لیڈروں کو بھی ایسا ہی کرنا ہوگا۔ریل کی ایک بوگی کراچی ریلوے سٹیشن سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر پٹری سے اتر گئی تھی۔اندھیری رات تھی بریک ڈاؤن ٹرین آدھے گھنٹے میں پہنچ گئی۔تمام کارکن ایک منٹ ضائع کئے بغیر کام میں جت گئے۔ درجنوں مزدوروں نے پاکستان زندہ آباد پاکستان زندہ آباد کے نعروں کی گونج میں ریل کی بوگی کو دوبارہ پٹری پر چڑھا دیا اور بریک ڈاؤن ٹرین واپس چلی گئی۔سکاٹ لینڈ کا ایک بزنس مین یہ منظر دیکھ کر ششدر رہ گیا۔اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔اسے یقین ہوگیا تھا کہ پاکستان کی ترقی کو روکنا ناممکن ہے ۔ بانئ پاکستان نے قوم کو اس قدر محنتی بنا دیا تھا کہ دیکھنے والے حیران ہوجاتے تھے۔
11 ستمبر 1947 کو آپ نے قوم سے اہم خطاب کیا اس خطاب میں آپ نے منشور پیش کیا خطاب کیا تھا ، شہری آزادی اور برابری کی بنیاد پر حقوق کی فراہمی کی ضمانت تھا۔ رنگ، نسل، امارت، غربت اور مذہب کی تفریق سے بالا تر ہو کر تمام شہریوں کو برابر کے حقوق کی فراہمی محض لفظوں تک محدود نہ تھی بلکہ عمل سے بھی ظاہر تھی ۔
نیز قائد اعظم نے 14 اگست کو پرچم لہراتے ہوئے دوبارہ ارشاد فرمایا
پاکستان میں کسی کو کوئی خصوصی مراعات حاصل نہیں ہوں گی، کسی شخص کو خصوصی حقوق نہیں ملیں گے اسی طرح ہرشخص کو پاکستان کے بھی تمام حقوق ادا کرنے ہوں گے۔