زمین کا اندرون کیسے کام کرتا ہے؟
ستاروں پر کمند ڈالنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم زمین، خصوصا اس کے اندرونی پیچیدہ نظام کو سمجھیں ۔ ارضیاتی پلیٹوں کے کھسکنے کا نظریہ پلیٹ ٹیکٹونکس ہمیں ارضیاتی سرگرمیوں کو سمجھنے میں خاصی مدد دیتا ہے۔ لیکن کیا یہی سب کچھ کافی ہے؟ ہمارے سیارے کی ارضیات، لندن کے بگ بین گھڑیال سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ ابھی ہمیں اس کے اندر اُتر کر کیوں اور کیسے پر مبنی، لاتعداد سوالوں کے جوابات دینے ہیں۔
پلیٹ ٹیکٹونکس سے نیچے جھانکئے تو اس سے 6300 کلو میٹر گہرائی تک سنگ و آہن کا ایک ملغوبہ موجود ہے جس کے دم سے زمین کی سیاروی بھٹی قائم دائم ہے۔ اس کے اوپر ٹیکٹونک پلیٹوں پر مشتمل ارضی پیڑیاں، گھڑی کے کانٹوں کی مانند ہیں جو ہمیں ایک حد تک تو معلومات فراہم کرتی ہیں لیکن یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان حرکات کے پیچھے کونسا نظام کارفرما ہے۔ آج کے ماہرین ارضیات کو پچھلی نسلوں سے زمینی کیفیات کی ایک سادہ تصویر بھی ورثے میں ملی ہے۔ ماہرین پہلے زمینی کرے کو سمجھنے کے لئے پیاز کی مثال دیا ۔ کرتے تھے ۔ اور یہ خیال قدرے معقول بھی تھا۔
زمین کی گہرائی سے گزرنے والی زلزلیاتی موجوں سے عیاں ہے کہ ٹیکٹونک پلیٹیں جس چٹانی مینٹل پر حرکت کر رہی ہیں، اس کی موٹائی تقریباً 2800 کلومیٹر ہے۔ اس کے نیچے 3470 کلو میٹر گہرائی تک پگھلا ہوا لوہا اور عین مرکز میں آڑو کی گٹھلی جیسا آہنی قلب کے (Core) پایا جاتا ہے۔
اب اگر صرف مینٹل پر غور کریں تو وہ بھی 670 کلو میٹر گہرائی پر بالائی اور نچلی پرتوں میں مزید تقسیم ہو جاتا ہے۔ پھر نچلے مینٹل کے نیچے بھی سینکڑوں کلو میٹر گہری ایک پرت موجود ہے۔ ٹیکٹونک نظریے سے پہلے پیاز والے مفروضے کی اہمیت میں اضافہ ہوا۔ زمین اپنی سرگرمی کے تحت 670 کلو میٹر گہرائی پر تقسیم ہے۔ علاوہ ازیں یہ شواہد بھی ملے ہیں کہ مینٹل کی نچلی پرت سے بھی نیچے محض چند کلو میٹر کی ایک اور پرت بھی ہے جو شاید مینٹل کی سب سے نچلی پرت بھی ہے۔ 670 کلو میٹر سے اوپر مینٹل کی طرح کھولتا ہے جس طرح اُتھلے برتن میں پانی ابلتا ہے۔ اس عمل سے وسط بحری کھاڑیوں (مڈاوش رجز ) تک نئی چٹانوں کا خام مال اور حرارت پہنچتے ہیں۔
یوں ایک طرف قشر کے نئے حصے وجود میں آتے ہیں تو دوسری جانب سمندری گہرائی میں موجود گھاٹیوں (trenches) سے پرانی چٹانوں کی ٹھنڈی سلیں بھی اندر اترتی جاتی ہیں۔ اس طرح زمین کا اندرونی ماحول کچھ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ شاید اسی طرح 670 کلو میٹر سرحد کے عین اوپر سے گرم چٹانی بلبلے پھوٹے ہوں گے جنہوں نے ہوائی جیسے گرم آتش فشانی مقامات کو جنم دیا ہوگا۔ لیکن یادر ہے کہ اس کھیل میں 670 کلومیٹر کی حد سے اوپر کوئی گرم چٹان نہیں اُبھری اور نہ ہی کوئی سرد چٹان اس حد سے نیچے تک گزر سکی ہے۔
اسے بیان کرنے کے لئے ایک دوسرا لیکن کم اہم تصور یہ بھی ہے کہ بالکل نیچے سے اوپر مینٹل میں اُبال آتا ہے اور قلب مینٹل سرحد سے گرم بلبلے نمودار ہو کر ہر طرف پھیلتے ہیں۔ گزشتہ پچاس برسوں میں حساس اور جدید ترین زلزلیاتی عکاسی سے زمین کے اندرون کی کھوج کے بعد اس حرارتی انجن کی پیچیدگی کا نظریہ مزید پختہ ہوا ہے۔
لیکن یہ بحث ختم نہیں ہوئی کہ آخر یہ کس طرح کام کرتا ہے۔ تصویر کشی سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ 670 کلو میٹر کوئی آخری اور حتمی حد نہیں۔ سرد سلیں مشکل ہی سے سہی لیکن اس حد سے نیچے بھی اُتر سکتی ہیں۔ پرت دار زمین کے حامی ماہرین نے اس موقعے پر 670 کلومیٹر کے بجائے 1000 کلو میٹر یا اس سے بھی گہری حد تجویز کی ہے۔ یا پھر یہاں ایک لچکدار، نیم نفوذ پذیر سرحد ہے جو صرف انتہائی ڈھیٹ سلوں یا بلبلوں ہی کو اوپر جانے دیتی ہے۔
اب زلزلیاتی عکاسی سے معلوم ہوا ہے کہ افریقہ اور بحر الکاہل والے خطے کے نیچے مینٹل والی چٹانوں کے دو عظیم، نیم مائع بلبلے موجود ہیں، جنہیں پسٹن سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ ان کی تفصیلات پر ماہرین کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا یہ معمول سے زیادہ گرم ہیں اور اپنی اچھال کی قوت سے اُبھر رہے ہیں؛ کثیف ہو کر ڈوب رہے ہیں یا پھر بے حرکت ہیں اور محض اطراف میں مائع کی لہروں سے اوپر اُٹھ رہے ہیں۔ جزوی طور پر پگھلی ہوئی چٹانوں کے پتلے چھلکے، شاید مینٹل کی آخری تہہ تک پہنچتے ہیں؛ شاید بلبلوں کی تہہ کو داغدار کرتے ہیں اور شاید نہیں بھی۔
ارضی کیمیا دانوں نے برسوں کی محنت سے مینٹل چٹانوں میں چند عناصر اور ہم جاؤں ( آئسو ٹوپس ) کا پتا لگایا ہے جنہوں نے اربوں برس تک خود کو مینٹل میں گھلنے ملنے سے باز رکھا ہوگا۔ لیکن ماہرین یہ نہیں بتا سکتے کہ مینٹل کی کس گہرائی میں یہ ذخیرے اور ماخذات موجود ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم اس پیچیدہ سیاروی مشین کو سمجھنے کے لئے ابتداء کہاں سے کریں؟ کیا ہم کسی پرزے پر توجہ دیں جو ہمیں بتا سکے کہ یہ مشین کب اور کیسے چلنی شروع ہوئی تھی؟ پورے کرہ ارض پر زلزلہ پیما با ترتیب انداز میں نصب ہیں، جن سے زلزلیاتی عکاسی میں مزید بہتری پیدا ہوئی ہے۔ اب ہمارے پاس جو زلزلیاتی ڈیٹا ہے، اس کے ذریعے ہم درجہ حرارت اور ارضی ترکیب کے اثرات کے درمیان فرق کر سکتے ہیں۔ اس طرح زمینی مینٹل کی تصویر مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔
معد نیات پر کام کرنے والے ماہرین طبیعیات، مینٹل کی گہرائی میں موجود چٹانوں کے خواص معلوم کر رہے ہیں اور انہیں دیکھتے ہوئے زلزلیاتی ڈیٹا کی تو جیہ کر رہے ہیں۔ لیکن مینٹل کی مکمل ساخت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے وہ مزید تفصیلات بتانے سے معذور ہیں۔ ہمارے پاس جتنا بھی تازہ ترین ڈیٹا ہے، اس کے ذریعے ماہرین، زمین کی اندرونی مشین کا ماڈل تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ اس پیچیدہ نظام کو سمجھنے کے لئے زلزلیاتی، معدنی، ارضی طبیعیات اور ثقلی اثرات تک کو استعمال میں لایا جا رہا ہے۔ توقع ہے کہ اگلے پچاس برس تک ہم یہ معلومات کر سکیں گے کہ زمین کا اندرونی نظام آخر کس طرح چل رہا ہے۔