نظام شمسی کے ان ستاروں کی طرف جن کا تعلق ہماری زمین سے ہے انسانی زندگی سے ہے ہمارے نظام شمسی میں مرکزی اہمیت سورج کو حاصل ہے اس کا سب سے قریبی سیارہ کہہ لیں یا ساتھی عطارد ہے یہ سورج کے مقابلے میں کافی چھوٹا ہے اس کے بعد مریخ کا نمبر آتا ہے یہ بھی کافی گرم سیارہ ہے جو سورج سے چھوٹا اور سورج کی تپش سے دہکتاانگارہ لگتا ہے۔ اس کے بعد ہماری زمین کا نمبر آتا ہے یہ بھی سورج سے کافی چھوٹی ہے مگر سورج سے مناسب فاصلے اور توانائی کے متناسب نظام کی وجہ سے یہاں زندگی کے آثار ملتے ہیں یہاں آگ، ہوا، پانی اور مٹی کا تناسب انسانی حیات کی بقاء کے مطابق ہے اس زمین کے گرد ایک اور مختصر سیارہ چاند بھی حرکت کرتا ہے
یہ زمین کا ذیلی سیارہ ہے علوم فلکیات میں جب ستاروں اور سیاروں کا تذکرہ ہوتا ہے ان کے اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہےتو زمین کی بجائے قمر کو شمار کیا جاتا ہے کیونکہ زمین پر رہنے والی مخلوق پر دوسرے سیارے جو اثرات مرتب کرتے ہیں ان میں قمر بھی شامل ہے اس لئے زمین کی بجائے قمر مخاطب ہوتا ہے اس کے بعد زہرہ کا نمبر آتا ہے یہ چمکدار روشن ترین سیاروں میں سے ایک ہے اس کا دلکش حسن دیکھنے والوں کو مہبوت کردیتا ہے اس کے بعد زحل کا نمبر آتا ہے اس خوبصورت پراسرار سیارے کے اردگرد عجیب رنگوں کے کئی حلقے رقص کرتے نظر آتے ہیں جو اس کی پراسراریت میں اضافہ کرتے ہیں یہ بھی کافی بڑا سیارہ ہے اس کے بعد مشتری کا نمبر آتا ہے یہ ہمارے نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے۔
یہ دیوقامت سیارہ عجیب رنگ برنگی طلسماتی روشنیوں کا شہکار ہے اس کے گرد اب تک 60 سے بھی زیادہ چاند دریافت ہوچکے ہیں۔ اس وقت کے نظارے کا کوئی اندازہ ہی نہیں کرسکتا۔جب رات کو اس سیارے کے فلک پر ایک دو نہیں درجنوں چاند طلوع ہوتے ہوں گے۔ کوئی پہلی کا ہوگا تو کوئی چودھویں کا کوئی سات کا ہوگا تو کوئی 18 واں، انسانی ذہن تو اس کے تصور سے ہی مست ہونے لگتا ہے اس کے بعد قدیم ماہرین فلکیات کے مطابق ستاروں کی نمبر ٹیم ختم ہوجاتی ہے
مگر ہمارے جدید ماہرین فلکیات نے بڑی بڑی دوربینوں سے جو سیارے دریافت کئے ان میں آٹھواں نمبر پلوٹو کا ہے جسے یہ نام ایک لڑکی نے دیا جب سائنسدانوں نے یہ سیارہ دریافت کیا تو دنیا بھر کو دعوت دی گئی تھی کہ اس کا نام رکھا جائے اور یہ اعزاز ایک نوجوان لڑکی نے جیت لیاتھا۔اس کے بعد نپ چون دریافت ہوا اس کے بعد یورنس سامنے آیا جسے فی الحال ہمارے نظام شمسی کا آخری سیارہ سمجھا جارہا ہے یہ سیارہ دسویں نمبر پر ہے یہ سورج سے بہت دور ہے اور گردش کرتے ہوئے کبھی کبھی تو ہمارے نظام شمسی سے بہت دور نکل جاتا ہے جہاں تک فی الحال جدید دوربینوں کی بھی رسائی نہیں۔ یہ تو ان ستاروں کی یا سیاروں کی ترتیب تھی جو صدیوں بلکہ کئی
ہزاروں سالوں سے ماہرین فلکیات نے ترتیب دیں تھیں۔
ماسوائے اس کے کہ ہماری زمین کے چاند کے علاوہ جن سیاروں کے گرد چاند جیسے ذیلی سیارےگردش کرتے ہیں ان کی تعداد میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہو یا ان چاندوں کے نام رکھے گئے ہوں گے۔ ماہرین تو ان دو سیاروں کی دریافت علم ہندسہ یعنی ریاضی کو دیتے ہیں کیونکہ علم ریاضی کے حسابی جدولوں کے مطابق ان کی موجودگی ظاہر ہو رہی تھی اور وہ بذات خود ایک دلچسپ مضمون ہے کہ ہمارے ان سیاروں کے وجود،فاصلے اور گردش کے محوروں کا ایک کائناتی حسابی نظام بھی ہے یہ فلکی جدول انسان کے عظیم علمی ترقی کی دلچسپ تاریخ بیان کرتا ہےجس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان نے صدیوں سے اس علم کی طرف رجوع کیا اور اس میں کتنی ترقی کی۔
ہزاروں سالوں سے ماہرین فلکیات نے ترتیب دیں تھیں۔
ماسوائے اس کے کہ ہماری زمین کے چاند کے علاوہ جن سیاروں کے گرد چاند جیسے ذیلی سیارےگردش کرتے ہیں ان کی تعداد میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہو یا ان چاندوں کے نام رکھے گئے ہوں گے۔ ماہرین تو ان دو سیاروں کی دریافت علم ہندسہ یعنی ریاضی کو دیتے ہیں کیونکہ علم ریاضی کے حسابی جدولوں کے مطابق ان کی موجودگی ظاہر ہو رہی تھی اور وہ بذات خود ایک دلچسپ مضمون ہے کہ ہمارے ان سیاروں کے وجود،فاصلے اور گردش کے محوروں کا ایک کائناتی حسابی نظام بھی ہے یہ فلکی جدول انسان کے عظیم علمی ترقی کی دلچسپ تاریخ بیان کرتا ہےجس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان نے صدیوں سے اس علم کی طرف رجوع کیا اور اس میں کتنی ترقی کی۔
جاری
اگلے حصے میں جانیئے
ہفتے کے دنوں کا ہمارے سیاروں سے کیا تعلق
جنسی زندگی پر شعاعوں کے اثرات۔۔۔کب اور کیا؟