دو ہفتے قبل غزہ میں 15
امدادی کارکنوں پر اسرائیلی فوجیوں کے حملے نے بین الاقوامی تناؤ کو بڑھا دیا ہے۔ موبائل فون کی فوٹیج سامنے آئی ہے جس نے اسرائیل
کو ان حالات کا حساب کتاب دینے پر مجبور کر دیا ہے جن میں اس کے فوجیوں نے فائرنگ
کی۔ امدادی کارکن ایک قافلے میں سفر کر رہے تھے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا تھا
کہ وہ مشکوک اور بغیر روشنی کے قریب پہنچے اس لئے ان پر فائرنگ کی تھی۔ لیکن فوٹیج
سے پتہ چلتا ہے کہ قافلے کی ہیڈلائٹس آن تھیں اور ایمرجنسی لائٹس چمک رہی تھیں۔ اسرائیل
نے اعتراف کیا ہے کہ فوجیوں کو روشنیوں اور خطرے کے بارے میں غلط فہمی تھی۔
یہ ویڈیو اسرائیل کو چیلنج
کرتی ہے کہ اس کے فوجیوں نے اتنی مہلک طاقت سے گولیاں کیوں چلائیں۔ یہ طلوع فجر سے
کچھ پہلے واقعہ ہوا ہے،جب ہلال احمر کے پیرامیڈیکس
اور شہری دفاع کے کارکنان رافا کے قریب زخمیوں کی مدد کے لیے کال کا جواب دے رہے ہیں۔
اسرائیل کی فوج نے پہلے کہا کہ اس قافلے نے لائٹس بند کرکے مشکوک انداز میں فوجیوں
کی طرف پیش قدمی کی۔ لیکن ویڈیو سے پتہ چلا کہ یہ نشان زدہ گاڑیاں ہیں، اور وہ
عکاس یونیفارم پہنے ہوئے ہیں۔ پھر بغیر وارننگ کے، شوٹنگ پانچ منٹ سے زیادہ جاری
رہتی ہے۔ پیرامیڈک فلم بنارہا تھا اوروہ نماز پڑھ رہا تھا جب فائرنگ ہوئی اور وہ
جانبر نہ ہوسکا۔ اور وہ ہلاک ہونے والے 15
افراد میں سے ایک تھا۔ اس کا فون اس کی لاش کے ساتھ ملا، اور اس نے سارا واقعہ ریکارڈ
کر لیا۔ گولی لگنے سے پہلے اس کے آخری الفاظ: "ماں، مجھے معاف کر دیں۔ میں
صرف لوگوں کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ میں جان بچانا چاہتا تھا۔"
فوٹیج صرف اس وقت سامنے
آئی جب سات دن بعد ٹیمیں محفوظ طریقے سے اس سائٹ تک پہنچ سکیں یہ فوٹیج غزہ کی ریت
میں ایک ہفتے تک دبی ہوئی تھی فوج کا کہنا ہے کہ لاشوں کو گاڑیوں کے ساتھ دفن کیا
گیاتاکہ انہیں جانوروں سے بچایا جاسکے، اقوام متحدہ نے اسے اجتماعی قبر قرار دیا۔
منگل کو اسرائیل کا ردعمل
اپنی افواج کے دفاع میں تھا۔گزشتہ رات، ایک
فوجی اہلکار نے اعتراف کیا کہ فوجیوں کو روشنیوں اور خطرے کے بارے میں غلطی ہوئی
تھی۔ فوج کا اصرار ہے کہ ہلاک شدگان میں سے چھ کا تعلق حماس سے تھا لیکن وہ اس بات
سے انکار کرتی ہے کہ انہیں قریب سے مارا گیایہاں اسرائیل پر صرف آزادانہ تحقیقات کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔