چاند کی باتیں (
از مبشر جمیل)
فرض کیجئے کہ ہماری دنیا
طوفانی ہواؤں اور آندھیوں کی مسلسل زد میں ہوتی اور درجہ حرارت جلا دینے والی گرمی
سے لے کر جما دینے والی سردی تک ہوتا دن اور رات کی مکمل طوالت صرف چھ گھنٹے ہوتی
ایسی دنیا میں زندگی شاید ہی وجود میں آتی یہ سب کچھ ہمارے سیارے زمین پر ہی ہوتا اگر ہم
اپنے چاند سے محروم ہوتے۔
ہمارا چاند 80 ملین بلین
ٹن یعنی اٹھ کروڑ ارب ٹن وزنی پتھر کا ٹکڑا ہے اس کا قطر ساڑھے تین ہزار کلومیٹر
کے لگ بھگ ہے یہ تقریبا تین لاکھ 84 ہزار 400 کلومیٹر کے فاصلے پر ہمارے گرد گھوم
رہا ہے یہ ہمارے آسمان پر سورج کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے روشن چیز ہے اس پر درجہ
حرارت 120 ڈگری سینٹی گریڈ سے لے کر منفی 220 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے اس پر
کشش ثقل زمین کے مقابلے میں چھ گنا کمزور ہے اس پر موجود چٹانوں کی اونچائی تقریبا
پانچ ہزار میٹر تک ہے۔
اس کی سطح پر ہزاروں گڑے
موجود ہیں جبکہ وہاں پانی اور ہوا کا کوئی نام و نشان تک نہیں یہ جگہ زندگی کے لیے
موت کا پیغام ہے لیکن پھر بھی ہم چاند سے رومان اور پراصراریت کی بآتی ں منسوب
کرتے ہیں چاند سے بے شمار کہانیاں اور واقعات وابستہ کرتے ہیں ۔
ہمارے نظام شمسی میں 300
کے لگ بھگ چھوٹے بڑے چاند جیسے اجسام موجود ہیں جو مختلف سیاروں کے گرد محو گردش
ہیں سیارہ زحل سیٹرن کے 46 چاند ہیں
ساتھ ہی ساتھ ہماری زمین
کے گرد 10 پراسرار اجرام گردش کر رہے ہیں جن میں سے پانچ بڑے شہاب ثاقب ایسٹرائڈز
ہیں اور چار خلائی مشن اپالو کی باقیات ہے جبکہ آخری اور سب سے بڑا ہمارا چاند ہے
انسان کے وجود میں آنے سے بھی بہت پہلے سے چاند ہماری زمین کا ساتھی ہے لیکن چاند
کیسے وجود میں آیا یہ ابھی تک ایک معمہ ہی ہے جدید سائنس چاند کے بارے میں کئی
نظریات پیش کرتی ہے مثلا یہ کہ چاند ایک بھٹکا ہوا جسم تھا جو زمین کے قریب سے
گزرنے کے باعث زمین کے ثقلی میدان میں قید ہو گیا دوسرا نظریہ کہتا ہے کہ زمین آج
سے تقریبا چار ارب سال قبل اپنی ہی جسامت کے ایک سیارے سے ٹکرا گئی تھی اس ٹکراؤ
کے باعث بہت سارا مادہ خلا میں اچھل گیا جو بعد اذاں ایک بہت بڑے جسم یعنی چاند کی
شکل میں یکجا ہو گیا ان دونوں نظریات میں سے کون سا حقیقت کے قریب ہے یہ جاننے کے
لیے انسان کو چاند پر جانا اور وہاں سے کئی چھوٹے بڑے پتھر اور مٹی کے نمونے زمین
پر لا کر ان کا تجزیہ کرنا پڑا ۔
1969 سے لے کر 1972 عیسوی تک چاند پر چھ
خلائی مشن بھیجے گئے اور صرف 12 افراد ہی اب تک چاند پر اترنے اور چلنے کا شرف
حاصل کر چکے ہیں یہ خلا نورد اپنے ساتھ بہت ساری کمری چٹانیں لونر راکس بھی لائے
ان چھوٹی چٹانوں کی خاص بات یہ تھی کہ ان کی شکل و شباہت اور کیمیائی ترکیب بالکل
زمینی چٹانوں جیسی ہی تھی اس دریافت سے دوسرے نظریے کو خاصی فوقیت و تقویت دی جانے
لگی چاند زمینی مادے ہی سے وجود میں آیا ہوگا ۔
ساڑھے چار ارب سال پہلے
چاند کا کوئی وجود نہ تھا اس وقت سورج کے گرد سینکڑوں سیارے گردش کر رہے تھے ان
میں سے بہت سارے ایسے مداروں میں گھوم رہے تھے جو دوسرے سیاروں کے مداروں کو کاٹتے
تھے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ انہی سینکڑوں سیاروں میں سے ایک"تھیا ِ" بھی
تھا جس کی جسامت زمین کے مقابلے میں تقریبا آدھی تھی اس کی خاص بات یہ تھی کہ یہ
ہماری زمین سے تصادم کے راستے پر گامزن تھا اس تصادم کی ایک ممکنہ منظر کشی کچھ
یوں ہو سکتی ہے "تھیا ِ" زمین سے دور ہونے کی وجہ سے شروع شروع میں ایک
ستارے کی مانند لگتا ہوگا لیکن پھر جیسے جیسے یہ زمین کے قریب ہوتا گیا آسمان میں
اس کی ظاہری جسامت بھی بڑھتی گئی پھر جیسے ہی تھیا ہماری زمین سے ٹکرایا ایک بہت
بڑا دھماکہ ہوا روشنی کا ایک بہت بڑا شعلہ خلا میں پھیل گیا پوری زمین پر زلزلے
اگئے اور تمام آتش فشاں پھٹ پڑے شاید یہ واقعہ آج سے چار ارب سال پہلے ہوا تھا ۔
تھیا کا قطر تقریبا 6500
کلومیٹر رہا ہوگا یعنی سیارہ مریخ کے برابر اور یہ 40 ہزار کلومیٹر فی گھنٹے کی
زبردست رفتار سے زمین کی طرف بڑھ رہا تھا ایک دوسرے سے انتہائی قریب آنے کی وجہ سے
دونوں سیاروں کی بیرونی ساخت ٹکرانے سے پہلے ہی پھٹ گئی ہوگی دھماکے سے پیدا ہونے
والی توانائی کھربوں ایٹم بموں سے پیدا ہونے والی توانائی سے بھی زیادہ رہی ہوگی
زمین پر موجود چٹانے اور پہاڑ اچھل کر خلا میں پہنچ گئے ہوں گے دھماکے کے بعد بہت
سارا مادہ زمین پر واپس آن گرا لیکن تھوڑا بہت پھر بھی خلا میں ہی رہ گیا لیکن یہ
مادہ مکمل طور پر زمین کی کشش سے آزاد نہ ہو سکا اور زمین کے گرد ایک حلقے کی شکل
میں ہی گردش کرنے لگا اس میں موجود چٹانیں آپس میں ٹکرا کر اور باہمی کشش کی وجہ
سے ایک دوسرے میں ضم ہوتی گئی اس طرح بڑے اجسام بننا شروع ہوئے اس مرحلے کو ہم ایک
طرح کی بڑھوتری بھی کہہ سکتے ہیں بڑے اجسام کی کشش بھی زیادہ تھی لہذا وہ رفتہ
رفتہ دوسرے چھوٹے اجسام کو اپنی طرف کھینچ کر اپنا حصہ بنا تے رہے یہ عمل تب تک
ہوتا رہا جب تک سارے چھوٹے بڑے اجسام نے مل کر ایک بہت بڑا جسم یعنی چاند نہیں بنا
دیا تقریبا س سال میں چاند کی سطح ٹھنڈی ہو گئی جب چاند نیا نیا وجود میں آیا تھا
تو یہ زمین سے صرف 27 ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر تھا لیکن چاند مستقل طور پر وہیں
پر ٹھہرا نہیں رہا بلکہ مسلسل زمین سے دور ہوتا گیا چاند کے زمین سے مسلسل دور
ہونے کا ثبوت 1969 عیسوی میں اس وقت ملا جب وہاں اترنے والے خلار نوردوں نے 64
سینٹی میٹر چوڑی انعکاسی پلیٹ یعنی ریفلیکٹر پلیٹ چاند پر رکھی زمین سے لیزر شعاعیں
چاند کی طرف پھینکی جاتی اور یہ شعائیں اس
آئینے سے ٹکرا کر زمین پر واپس پہنچتی ان تجربات کی مدد سے سائنس دانوں نے چاند
اور زمین کے مابین فاصلے کو محض چند سینٹی میٹر کی غلطی سے معلوم کر لیا اور آخر
کار ہمیں یہ بھی پتہ چل گیا کہ چاند ہم سے ہر سال چار سینٹی میٹر دور ہو رہا ہے۔
لیکن سوال یہ تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
جدید سائنسی تحقیقات سے واضح ہوا ہے کہ زمین اور
تھیا کے درمیان ٹکراؤ سے زمین کے زاویائی معیار حرکت اینگولر مومنٹم میں بہت زیادہ
اضافہ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے زمین اپنے محور پر بھی بہت تیز رفتاری سے گھومنے
لگی تھی اس وقت زمین پر ایک دن کا دورانیہ صرف چھ گھنٹے تھا یعنی زمین آج کے مقابلے
میں چار گنا زیادہ رفتار سے گھوم رہی تھی تب چاند بھی قدرے زیادہ رفتار سے زمین کے
گرد گھوم رہا تھا اور صرف 20 دنوں میں زمین کے گرد چکر مکمل کر رہا تھا اس وقت
چاند زمین سے اب کے مقابلے میں 15 گنا قریب تھا اتنا قریب ہونے کی وجہ سے چاند
زمین کو زیادہ کشش سے کھینچ رہا تھا جس کے نتیجے میں زمین کی شکل بیضہ نما یعنی
انڈے جیسی ہو گئی تھی یاد رہے کہ جو چیز بھی دائرے میں گھومتی ہے تو اس کی ویلاسٹی
کا رخ ہمیشہ باہر کی طرف ہوتا ہے کیونکہ اس پر مرکز گریز قوت کام کر رہی ہوتی ہے
لہذا جیسے جیسے زمین کے گرد چاند کی گردشی رفتار میں اضافہ ہوا ویسے ویسے اس کا
مدار بھی دائروی سرکلر کے بجائے مرغولا نما سپائرل میں بدلتا چلا گیا اسی لیے چاند
ہم سے دور ہوتا چلا گیا اور آج بھی دھیرے دھیرے دور ہو رہا ہے اور یہ عمل مزید کئی
ارب سال تک جاری رہے گا چاند کے زمین سے قریب ہونے کا زمین کو بہت فائدہ پہنچا
کیونکہ وہ شہاب ثاقب جو ٹکرانے کے لیے زمین کی طرف بڑھتے تھے وہ چاند سے ٹکرا کر
راستے ہی میں رک جاتے اور چھوٹے موٹے شہاب ثاقب ہی زمین تک پہنچنے میں کامیاب ہو
پاتے گویا چاند نے خود نقصان اٹھا کر زمین کو محفوظ جگہ بنا دیا مزید براں تھیا
اور زمین میں تصادم سے بھی زمین کو فائدہ ہوا اس کے نتیجے میں زمین اپنے محور پر
تقریبا 23 ڈگری کے بقدر جھک گئی زمینی محور میں اس ٹیڑھے پن کی وجہ سے موسم وجود
میں آئے ورنہ یوں ہوتا کہ خط استوا ایکویٹر اور اس کے آس پاس والے علاقوں میں سارا
سال سخت گرمی پڑتی رہتی جبکہ اس سے دور والے علاقے ہمیشہ منجمد ہی رہتے زمینی محور
کے اس ٹیڑھے پن کو برقرار رکھنے میں چاند بھی بہت مددگار ثابت ہوا اس کی غیر
موجودگی میں زمین مسلسل ہچکولے کھا رہی ہوتی اور موسم بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے
ہوتے۔
ایسی ہی ایک مثال سیارہ مریخ ہے جس کے گرد دو
چھوٹے سیارچے گھوم رہے ہیں یہ اتنے چھوٹے ہیں کہ مریخ کو قیام پذیری نہیں دے سکتے
اسی لیے مریخ مسلسل طوفانوں کی زد میں رہتا ہے اور وہاں کا درجہ حرارت ہمیشہ نقطہ
انجماد سے کئی گنا نیچے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ مریخ پر زندگی نہیں ہے چاند کی سطح
پر تقریبا تین لاکھ گڑے موجود ہیں جن کے قطر آدھے میل سے لے کر 500 میل تک ہیں یہ
گڑے شہابیوں کے چاند پر گرنے سے وجود میں آئے سب سے بڑا گڑے کی چوڑائی ایک ہزار
ایک کلومیٹر ہے یہ تمام گڑے کم و بیش ایک ہی وقت میں وجود میں آئے۔
چار ارب سال پہلے نظام
شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری نے نظام شمسی میں موجود تمام شہابیوں اور آوارہ
چٹانوں یعنی ایسٹرائڈز کا رخ اندرونی نظام شمسی کی طرف کر دیا تھا لہذا اکثر یہ
بڑے پتھر چاند یا زمین سے ٹکرا جاتے کئی لاکھ سال تک یہ بڑے پتھر زمین جیسے چھوٹے
سیاروں سے ٹکراتے رہے انتہائی رفتار سے ٹکرانے کی وجہ سے کئی ہزار سینٹی گریڈ درجہ
حرارت پیدا ہوتا جو چٹانوں کو پگھلا دیتا اور وہ لاوے کی شکل میں چاند کی سطح پر
پھیل جاتی ایسی جگہوں کو ماریہ کہا جاتا
ہے شہابیوں اور آوارہ خلائی چٹانوں کے ٹکراؤ سے چاند کا بہت زیادہ بہت سا مادہ خلا
کی نظر ہو جاتا اور پھر زمینی کشش کے باعث زمین پر آٹکراتا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا زمین کی چٹانیں
اور پتھر بھی چاند پر پہنچ سکتے ہیں لیکن زمین کی کشش سے کوئی بھی چیز باہر
پھینکنے کے لیے بہت توانائی چاہیے ایک خلائی شٹل کو زمین کی کشش سے نکلنے کے لیے
15 ملین ہارس پاور کی توانائی درکار ہوتی ہے جبکہ ایک چاند گاڑی لونر ماڈیول کو
چاند کی کشش سے نکلنے کے لیے صرف 6 ہارس پاور درکار ہوں گے زمین سے جب کوئی چند
کلومیٹر بڑی خلائی چٹان ٹکراتی تو یہ
زمینی فضا میں داخل ہوتے دوران کرہ ہوائی میں ایک سرنگ سی بنا دیتی ہے تصادم کے
بعد زمینی مادہ اچھل کر اسی سرنگ سے ہوتا ہوا فضا میں پہنچ جاتا ہے اور یوں زمین
کی کشش سے آزاد ہو کر چاند پر پہنچ سکتا ہے۔
چونکہ چاند ماضی میں زمین سے خاصے کم فاصلے پر
تھا لہذا زمینی چٹانوں کا چاند پر پہنچنا نسبتا آسان تھا چاند کی وجہ سے زمین پر
زندگی کی ابتدا اور اس کے ارتقاء میں بھی بہت مدد ملی چاند کے قریب ہونے کی وجہ سے
سمندروں میں مد و جزر رونما ہوتے یہ مد و جزر بہت اونچی لہریں پیدا کرتے ان کی
اونچائی کئی ہزار فٹ اور چوڑائی کئی ہزار میل ہوتی تھی گویا ہم انہیں سونامی بھی
کہہ سکتے ہیں یہ پانی ساحلوں کے راستے کئی ہزار کلومیٹر اندر خشک براعظم میں داخل
ہو جاتا اور زمین پر موجود ابتدائی اقسام کی زندگی مثلا یک خلوی جانداروں اور
چھوٹے پودوں کو بہا کر اپنے ساتھ واپس سمندر میں لے جاتا یوں سمندروں میں بھی نامیاتی
مرکبات اور چھوٹے جانور پودے پہنچ جاتے جن
کے ارتقا سے سمندروں میں بھی زندگی کا آغاز ہوا سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ڈی این
اے کا سالمہ بھی اسی جگہ وجود میں آیا ہوگا ۔
اگر چاند نہ ہوتا تو
زندگی کا ارتقا مختلف ہوتا جن اقسام کے جانور اور پودے آج موجود ہیں ان کی جگہ
شاید دوسرے جانور اور پودے ہوتے کیونکہ ارتقائی مراحل ماحول کی تبدیلی کی وجہ سے
بدل جاتے ہیں کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زمین پر بہت ساری قدرتی آفتیں بھی چاند
کی وجہ سے آتی ہیں مثلا آتش فشانوں کا
پھٹنا، زلزلوں کا آنا، براعظم پلیٹوں کا اپنی جگہ سے سرکنا، سونامی
وغیرہ ۔
یہ آفتیں اکثر تب آ سکتی
ہیں جب چاند اور سورج دونوں زمین کے ایک طرف ہو جیسا کہ سورج گرہن کے وقت ہوتا ہے
کیونکہ دونوں کی مشترکہ کشش ثقل زمین کے اندرونی اور سطحی مقامات پر کہیں زیادہ
اثر انداز ہوتی ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق 2005 عیسوی میں پاکستان میں آنے والا
زلزلہ بھی اس وقت آیا جب سورج گرہن کا واقعہ چند دن پہلے ہوا تھا لیکن جیسا کہ ہم
دیکھ چکے ہیں کہ چاند مسلسل زمین سے دور جا رہا ہے لہذا دو ارب سال بعد چاند زمین
کے آسمان سے کم و بیش غائب ہو جائے گا اور اس کا زمین پر اثر نہ ہونے کے برابر
ہوگا ایسی صورت میں وہ سب کچھ ہوگا جو ہم اس مضمون کی ابتدا میں بیان کر چکے ہیں
زمین مسلسل ہچکولے کھائے گی 24 گھنٹے تند و تیز ہوائیں چلیں گی جن کی وجہ سے
سمندروں اور خشکی پر طوفان اور سیلاب آئیں گے زمین پر زندگی کا باقی رہنا ناممکن
ہو جائے گا مزید پانچ ارب سال بعد ہمارا سورج اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارا پورا نظام
شمسی بھی اپنی آخری سانسیں لے رہا ہوگا جو آخر کار ایک زوردار دھماکے سے پھٹ جائے
گا اور اس کے گرد موجود تمام سیارے اور ستارے بھی اختتام پذیر ہو جائیں گے۔