The science of success | کامیابی اب آپ کے قدموں میں آچکی ہے بس اٹھانا آپ نے ہے

کامیابی کی سائنس

کامیابی یہ شاید دنیا کا سب سے خوبصورت لفظ ہے اس میں اتنی قوت اور کشش ہے کہ کرہ ارض پر انسان نے آپ نے وجود سے لے کر آج تک جس چیز پر سب سے زیادہ تحقیق کو توجہ صرف کی وہ کامیابی ہی ہے اس سے قطع نظر کہ کامیابی کا معیار اور تصور کیا ہے اور آج کامیابی کا موضوع بلا شعبہ ایک سائنس کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جیسے طبیعی سائنس میں ہر شے کچھ مخصوص اور ناقابل تبدیل قوانین کی پابند ہوتی ہے کہ جن کے مطابق تمام سائنسی واقعات رونما ہوتے ہیں اسی طرح کامیابی کے لیے بھی افاقی قوانین ہیں جو قدرت کے وضع کرتے ہیں

The science of success | کامیابی اب آپ کے قدموں میں آچکی ہے بس اٹھانا آپ نے ہے
 

کامیابی اب آپ کے قدموں میں آچکی ہے بس اٹھانا آپ نے ہے

حصول کامیابی کے لیے درکار ان افاقی قوانین کے مجموعے کو انتھونی رابنز نے سائنس آف اچیومنٹ کا نام دیا ہے اسی مناسبت سے میں انہیں اردو میں کامیابی کی سائنس کہنا چاہوں گا یہی میری اس تحریر کا عنوان بھی ہے

جب ہم کسی کو کسی کام یا مقصد میں کامیاب دیکھتے ہیں تو دراصل اس نے انہی فطری قوانین پر عمل کیا ہوتا ہے جبکہ وہ لوگ جو ان فطری اصولوں سے روگردانی کرتے ہیں آپ نے مقاصد میں ناکام رہتے ہیں

 

ہر عمل کا نتیجہ

جب ہم کامیابی کی سائنس کہتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے قوانین فطرت کا جائزہ لیجئے تو آپ  کو معلوم ہوگا کہ ہر عمل کا ایک نتیجہ ہوتا ہے سال میں چار موسم ہوتے ہیں اور ہر موسم کی آپ نی فصل ہوتی ہے خریب کا بیج ربیع میں بونے پر اس بیج سے وہ فوائد حاصل نہیں ہو سکیں گے اسی طرح آپ  جس پھلیاں سبزی کا بیج بوئیں گے وہی حاصل کریں گے ہر وہ عمل جو ہم انجام دیتے ہیں اس سے جو قوت نکلتی ہے وہ آپ نی ہی طرز کا خاص نتیجہ دیتی ہے گویا جو بوؤ گے وہی کاٹو گے! زندگی میں ناکامی کا بیج بو کر ہم کامیابی حاصل نہیں کر سکتے خوشی حاصل کرنے کے لیے ہمیں خوشی کا بیج ہی بونا پڑے گا

ہمیں عمل کی اپنے زمین پر کیا بونا ہے اس کا انتخاب ہم ہر لمحے کرتے رہتے ہیں شعوری یا غیر شعوری طور پر لیکن ہمیں اپنی مرضی کا نتیجہ یعنی فصل تبھی ملتا ہے جب ہم شعوری طور پر آپ نے عمل کا انتخاب کرتے ہیں جب ہم شعوری تو سطح پر آپ نے عمل کا تعین کرتے ہیں کہ ہمیں کیا کب اور کیسے کرنا ہے

آپ  کے ساتھ ہر لمحے اور اس لمحے کی جو کچھ ہو رہا ہے خواہ آپ  اسے پسند کیجیے یا نآپ سند وہ آپ کے اس عمل کام منطقی نتیجہ ہے جو آپ  نے گزرے لمحوں یعنی ماضی قریب یا ماضی بعید میں انجام دیا تھا البتہ انفرادی سطح پر من حیث القوم المیہ ہے کہ ہمارا واسطہ اکثر ایسے نتائج سے بڑھتا ہے جو ہمیں پسند نہیں ہوتے اور جنہیں ہم آپ نے بد قسمتی سے تعبیر کرتے ہیں حالانکہ یہ سب کچھ ہمارے ان اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے جو ہم ماضی میں سرانجام دے چکے ہیں بس ان کے نتائج اب سامنے آئے ہیں یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے بیج بونے پر فورا ہی اچھی یا خراب فصل کا پتہ نہیں چلتا بلکہ فصل کی نمو ہونے پر بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے چند ماہ پہلے جو بیج بویا تھا وہ ہماری پسند کی فصل کا تھا یا نہیں

 

اگر کوئی آپ کی تذلیل کریں تو یقینا آپ اس شخص کو پسند نہیں کریں گے اور نہ آپ نے کبھی چاہا کہ آپ کی تذلیل کی جائے یا کوئی آپ کی تعریف کرے تو آپ خوش ہوں گے لیکن دونوں ہی صورتیں تذلیل یا تعریف آپ کا انتخاب تھیں

آپ اس بات پر حیران تو ہوں گے مگر یہی حقیقت ہے البتہ فرق یہ ہے کہ پہلا انتخاب غیر شعوری ہے تو دوسرا شعوری انتخاب لیکن عموما انتخاب کرتے وقت ہمیں احساس نہیں ہوتا کہ ہم آپ نے لیے کامیابی کے روپ میں ناکامی کا انتخاب کر رہے ہیں اور پھر جب ناکامی کی فصل اگتی ہے تو آپ نی قسمت حالات یا بزرگوں کا رونا لے بیٹھتے ہیں

آئزک پالوف نے کتوں پر جو تجربات کیے تھے ان سے اس نے نتیجہ اخذ کیا تھا کہ بار بار تکرار سے انسانی ذہن ایک خاص حالت پر ا جاتا ہے ہمارا معاملہ بھی زندگی میں بار بار ہونے والے تجربات کے بعد کچھ اسی قسم کا ہو جاتا ہے ہمارا ذہن بچپن لڑکپن اور جوانی میں ایک جیسے واقعات سے اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج کی بنیاد پر ایک محدود دائرے میں سوچنے اور دیکھنے کا عادی ہو جاتا ہے گویا کہ ہم میں اس دائرے سے باہر نکل کر سوچنے اور دیکھنے کی صلاحیت باقی ہی نہیں رہتی حالانکہ اس دائرے سے باہر کی دنیا بالکل مختلف ہوتی ہے

تا ہم اس کے بارے میں سوچنے اور دیکھنے کے لیے ایسی فکر اور تجربات اختیار کرنے پڑتے ہیں جو اب تک کی فکر و تجربات سے یکثر مختلف ہوں مگر ان نئے تجربات و عقائد کو اختیار کرنا خاص کر شعوری سطح پر ہمارے لیے ناممکن سا ہو کر رہ جاتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہم دوبارہ غیر شعوری طور پر پرانے تجربات و عقائد کی دنیا میں جینے لگتے ہیں ہمارے یہ عقائد یا نظریات ہمیں اگے بڑھنے سے روکتے اور ہماری کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں یہ سب کچھ ہمارے اندر یعنی ذہن میں غیر شعوری سطح پر ہو رہا ہوتا ہے

 

چنانچہ ہم اگرچہ شعوری سطح پر کامیابی کے لیے تگ و دو کر رہے ہوتے ہیں لیکن غیر شعوری طور پر ناکامی کا انتخاب کر رہے ہوتے ہیں شعوری سطح پر ہم خوشی کے جتن کرتے ہیں مگر غیر شعوری سطح پر بے سکونی اور مایوسی ہی منتخب کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ ساری زندگی میں محنت کرتے ہیں کامیاب زندگی بھی گزارنا چاہتے ہیں زندگی کو پرسکون اور پرمسرت دیکھنا چاہتے ہیں مگر اس کا نتیجہ ان کی خواہشات کے مطابق نہیں ہوتا چنانچہ اس غلط فہمی یا لاعلمی کی بنا پر ایک عام مزاج یہ بن چکا ہے کہ جو مقدر میں لکھا ہے ہو کر رہے گا نیز ہماری زندگی کے مسائل و مشکلات ہماری زندگی کا لازمہ ہیں اور ان سے پیچھا چھڑانا ہمارے لیے ممکن نہیں

یہ بات یقینا درست ہے کہ مسائل و مشکلات ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہیں مگر یہ عادی حقیقت ہے باقی کی آدھی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ان تمام مسائل کے حل ہمارے پاس موجود ہیں اور ہم ان مسائل کو حل کر کے کامیاب ہوسکتے ہیں ہو سکتا ہے کہ اکثر قارئین کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہو مگر یہی حقیقت ہے جیسے اللہ تعالی نے کوئی مرض ایسا پیدا نہیں فرمایا کہ جس کی دوا اس زمین پر موجود نہ ہو اسی طرح ہماری زندگی میں پیش آنے والا کوئی مسئلہ ایسا نہیں کہ جس کا کوئی حل نہ ہو

لیکن جس طرح مرض کے علاج اور متعلق دوا کے لیے معالج سے رجوع ہونا پڑتا ہے اسی طرح زندگی کے مختلف النوع مسائل و مشکلات حل کرنے کے لیے انہیں حل کرنے میں رہنمائی کرنے والے ماہرین یعنی موٹیویشنل ایکسپرٹس پرسنل کوچ اور کونسلرز سے مدد لینا ضروری ہوتا ہے یہ ماہرین دراصل کامیاب زندگی کے ماہرین ہوتے ہیں جس طرح ایک معالج طبیب ڈاکٹر حکیم مریض کے مرض کے اصل اسباب کی تشخیص کرتا اور انہیں دور کرنے والی دوا تجویز کرتا ہے اسی طرح یہ ماہرین بھی آپ کی زندگی کے مسائل و مشکلات کے اسباب کی تشخیص کرتے اور ان کے حل کے لیے دوا تجویز کرتے ہیں

 

کامیاب زندگی کے ماہرین

پاکستان میں اگرچہ اس جانب اب تک قطعا توجہ نہیں دی گئی البتہ یورپ اور امریکہ وغیرہ میں اس شعبے میں خاصہ کام اور تحقیق ہوئی ہے ہمارے ہاں کامیابی کی سائنس کے ماہرین میں ڈیل کارنیگی کا نام سب سے نمایاں نظر اتا ہے بلکہ مجھے کہنے دیجیے کہ اردو خواں طبقے میں یہی ایک نام جانا جاتا ہے مجھے اجازت دیجئے کہ میں اسے المیہ کہوں کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جب کامیابی کی بات کی جاتی ہے یا اس موضوع پر کچھ پڑھایا جاتا ہے تو صرف ڈیل کارنیگی کی ترجمہ شدہ کتابیں یا ان سے اخذ کیا گیا مواد ہی ہوتا ہے حالانکہ ڈیل کار نیگی سے پہلے بھی کئی نام ہیں مثلا نپولین ہل وغیرہ

 

دوسری بات یہ ہے کہ ڈیل کارنیگی کا زمانہ جنگ عظیم اول سے بھی پہلے کا ہے اس کے بعد سے آج تک 21ویں صدی کے اٹھ برس گزرنے تک ان ماہرین کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے مختلف پہلوں سے کامیابی پر کام کیا ماضی میں جھانکے تو ڈیل کار نیگی کا نام سب سے نمایاں ہے جبکہ موجودہ دور میں اسٹیفن آر کوی  سب سے آگے ہے کامیابی زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہو کسی نوعیت کی ہو کامیابی کے راستے میں رکاوٹیں اور مسائل کیسے ہی ہوں ان ماہرین نے ان رکاوٹوں کو دور کرنے اور مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنی عقلیں لڑا دیں اور زندگیاں کھپا دیں چنانچہ سبھی نے اپنے اپنے انداز میں مگر سائنسی اور تحقیقی بنیادوں پر کامیابی کی پوشیدہ راہ دریافت کیے ہیں ان ناموں میں اسٹیفن آر کوی  کے علاوہ برائن ٹریسی، پیٹر ایف ڈر کر، انتھونی رابنز اور ٹام پیٹرز وغیرہ کے نام سر فہرست ہیں

لیکن ہمارے ہاں لوگ صرف ڈیل کارنیگی سے اپنی معلومات کا آغاز کرتے ہیں اور ڈیل کارنیگی ہی پر ختم کرتے ہیں کامیابی کے ضمن میں جتنی کتابیں بازار میں دستیاب ہیں اگر ان پر بھی ڈیل کارنیگی کا نام لکھ دیا جائے تو یہ نام ہی اس کتاب کی فروخت کی ضمانت بن جاتا ہے اور مجھے یہ کہنے میں کچھ عار نہیں کے بازار میں کئی تراجم ایسے بھی مل جائیں گے جو کم از کم ڈیل کارنیگی کسی کتاب کا تو ترجمہ قطعا نہیں لیکن ان پر ڈیل کارنیگی کا نام چسپاں ہے صرف اس لیے کہ یہ نام کتاب کو فروخت کروا دے جیسے ایک زمانے میں پنجابی فلموں میں ملکہ ترنم نور جہاں کا نام بطور گلوکارہ اس فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا

 

کار نیگی سے کوی تک

21 ویں صدی کے نامور ترین دانشوروں میں اسٹیفن آر کوی کا نام سب سے نمایاں ہے ہفت روزہ ٹائم نے بیسویں صدی کے موثر ترین 25 افراد کی ایک فہرست شائع کی تھی جس میں اسٹیفن کوی کا نام بھی شامل تھا ڈیل کارنیگی اگر 1905 کا ماہر تعمیرات تھا تو اسٹیفن آر کوی  2005 کا ماہر، اس کے ساتھ ساتھ اور بے شمار نام بھی ہیں ان کے کام کی اہمیت سے انکار نہیں تاہم یہاں ان کا ذکر مقصود نہیں

1905 سے 2005 تک طبیعی سائنس نے جتنا سفر کیا اور جتنی ترقی کی ہے آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کے کامیابی کی سائنس نے بھی اتنا ہی سفر طے کیا ہے اگرچہ اردو طبقے کو اس کی خبر ہی نہیں گویا طبیعی سائنس اور کامیابی کی سائنس دونوں کا سفر متوازی طور پر جاری ہے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ طبیعی سائنس میں تو پاکستانیوں نے کسی قدر ترقی کر لی ہے اور سرکاری اور عوامی سطح پر اس میدان میں آگے بڑھنے کا شعور اور جذبہ بھی پایا جاتا ہے لیکن کامیابی کی سائنس میں پاکستانی اردو خواں طبقہ آج بھی پہلی جنگ عظیم سے پہلے کے مقام پر کھڑا ہے اس پر مستزاد یہ کہ اسے اس کا شعور بھی نہیں کہ وہ کس قدر پیچھے ہے جذبہ تو بہت بعد کی بات ہے چونکہ ملک میں لوگ ڈیل کار نیگی فلسفے سے آگے نہیں بڑھے اس لیے ہمارے ہاں انسانی نفسیات اور تعمیری شخصیت پر بات کرنے والے عموما طفل مکتب سے کچھ زیادہ نہیں ڈیل کارنیگی کتابوں میں جس قسم کی باتیں بیان کی گئی ہیں وہ آپ نے موضوع کی ابتدائی اور سادہ ترین شکل ہے لگ بھگ ایک صدی پہلے تک نفسیات ہی ان تمام موضوعات کا واحد نام تھا لیکن تب سے اب تک اس کے کئی اور نام آچکے ہیں سیلف ہیلپ پرسنل ڈیویلپمنٹ سیلف گرومنگ پرسنل مینجمنٹ کریکٹر بلڈنگ لیڈرشپ مینجمنٹ اور نہ جانے کیا کیا پھر یہ موضوع زندگی کے چند خاص شعبوں تک محدود نہیں رہا بلکہ ہر چھوٹے بڑے شعبہ حیات کا احاطہ کر چکا ہے

 

آج انسان کی اندرونی خصوصیات مثلا خود اعتمادی اور خود توقیری سے لے کر تعلیم اور کیریئر فوبیا سے لے کر تجارت تک کے موضوعات پر کام ہو رہا ہے متنوع فیہ موضوعات کے علاوہ ہر عمر اور ہر جنس کی تربیت اور تعمیر شعور کا بھی اہتمام کیا جا رہا ہے چنانچہ پیدائش کے ساتھ ہی بچے کی اس نہج پر تربیت شروع کر دی جاتی ہے کہ وہ ملک کا باشعور اور کامیاب شہری بن سکے اس سلسلے میں والدین کے لیے کتابیں تحریر کی جاتی ہیں اور کورسز کروائے جاتے ہیں تجارتی اور کاروباری ادارے آپ نے کارکنوں میں تحریک اور لگن پیدا کرنے کے لیے آپ نے ہاں مختلف ماہرین کے پروگراموں کا انتظام کرتے ہیں شیر خارگی بچپن لڑکپن نوجوانی اور جوانی کے صحیح تعلیمی معاشرتی معاشی اور خاندانی مسائل کے حل کے لیے رہنمائی فراہم کرنے کا بھرپور انتظام کیا جاتا ہے

 

سرکاری اور غیر سرکاری دونوں سطحوں پر یہ انتظام بھرپور طور پر ہو رہا ہے چھوٹے بڑے ادارے سب اپنی جگہ پر اور آپ نے انداز سے کام کر رہے ہیں کامیابی کا شعور آگے بڑھانے میں ایک جانب وہ قلم کار جنہیں موٹیویشنل رائٹرز کہا جاتا ہے تو دوسری جانب کوچ اور کونسلرز ہیں جو سیمینارز ورکشاپس اور روبرو کونسلنگ کے ذریعے لوگوں کو  اپنی کمزوریوں پر قابو پانے میں مدد دے رہے ہیں اور ان میں کامیاب زندگی کا شعور بیدار کر رہے ہیں

Post a Comment

0 Comments

ebay paid promotion