کامیابی کے لئے یہ طریقہ اپنائیں
میں نہ چاہتے ہوئے بھی
اپنے جاپانی دوست کی دعوت پر ٹوکیو کے فائیواسٹار ہوٹل میں داخل ہو گیا کیونکہ میں
اپنے جاپانی دوست کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ جاپان کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں
کھانے تو بہت شاندار ہوتے ہیں لیکن ان کھانوں میں بعض ایسی اشیاء ہوتی ہیں جو بطور
مسلمان ہمارے لیے ممنوع ہیں مگر شکوک کے باعث گائے، بکرے اور مرغی کا گوشت بھی ہم
نہیں کھا سکتے جبکہ سور کا گوشت تو سن کر ہی کئی مسلمانوں کو الٹیاں آناشروع ہو
جاتی ہیں۔
اس وقت یہی کیفیت میری بھی
تھی۔ تاہم دوست کو انکار بھی نہیں کر سکا اور جا کر کھانا بھی نہیں کھا سکتا تھا۔
میرا جاپانی دوست جانتا
تھا کہ میں مسلمان ہوں اور میرے لیے بعض اشیاء کا بطور غذا استعمال ممنوع ہے۔ اب
ہم کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ چکے تھے۔ کھانے کا آرڈر لینے کے لیے ویٹر مؤدبانہ انداز
میں میرے سامنے موجود تھا، میں نے کھانا آرڈر کرنے سے قبل ہی اسے بتادیا کہ میں
صرف سبزی اور سی فوڈ کا کھانا آرڈر کروں گا، اگر اس میں بھی کسی قسم کے ممنوع اجزا
موجود ہوں تو براہ کرم مجھے آگاہ کر دے۔ میرا اتنا کہنا تھا کہ ویٹر کے پسینے چھوٹ
گئے۔ ایسا لگا کہ میں نے کوئی ذمہ داری کا بوجھ اس پر رکھ دیا ہو اور وہ اس کے نیچے
دب کر رہ گیا ہو۔ ویٹر نے مجھے انتظار کرنے کا کہا اور خود اپنے منیجر کے پاس تیز
تیز قدم اٹھاتے ہوئے روانہ ہو گیا۔ میں اگلے پانچ منٹ میں اپنے جاپانی دوست کے
ساتھ گپ شپ میں مصروف ہو چکا تھا۔ اتنے میں وہی ویٹر ایک جاپانی منیجر کے ساتھ
حاضر ہوا۔ منیجر کے ہاتھ میں تین صفحات پر مبنی ایک شیٹ تھی جس میں ہوٹل میں پیش کیے
جانے والے تمام کھانوں کی تفصیلات اور اس میں موجود اجزا کی فہرست موجود تھی اور
اگلے چند منٹوں میں جاپانی منیجر نے ان تمام کھانوں کے سامنے تک مارک لگا دیئے جو
میں کھا سکتا تھا یعنی جن کھانوں میں کوئی بھی حرام چیز موجود نہیں تھی، صرف سی
فوڈ اور سبزی کے اجزا موجود تھے۔ میں جاپانی ویٹر اور منیجر کی ایمانداری اور ذمہ
دارانہ اقدام پر حیران تھا اور جاپانی قوم کو دل ہی دل میں شاباش پیش کر رہا تھا
جو اپنے مہمانوں کا اس قدر خیال رکھتے ہیں۔ میں نے کھڑے ہو کر دونوں افراد کا شکریہ
ادا کیا اور پھر دل کھول کر اپنے جاپانی میزبان کی جانب سے دی جانے والی دعوت سے
لطف اندوز ہوا۔ اس واقعے کے بعد میرے دل میں جاپانی قوم کا احترام اور زیادہ بڑھ گیا
تھا کیونکہ زندگی کے ہر شعبے میں جاپانی قوم اپنی مثال آپ ہے۔ صفائی ستھرائی میں
دنیا میں اس قوم کا کوئی مقابل نہیں ہے ، ایمانداری میں اس قوم کا کوئی مقابل نہیں
ہے ، محنت اور وقت کی پابندی میں اس قوم کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ غرض بطور قوم
جاپانی دنیا کی نمبر ایک قوم ہے۔ یہاں موبائل فون کی گھنٹیاں اکثر خاموش رکھی جاتی
ہیں۔
جاپانی قوم ایک سادگی
پسند قوم ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس مہنگی چیز ان کی گاڑی،
ان کی گھڑی اور ان کے جوتے ہوتے ہیں۔ یہاں نو کر رکھنے کا رواج بھی نہیں ہے۔ یہ
لوگ اپنے کام خود کرتے ہیں۔ ڈرائیور نہیں ملے گا۔ یہاں گھر کے کام کاج کے لیے ماسی
کا رواج نہیں ہے۔ کھانے پکانے کے لیے خانساماں کارواج نہیں ہے۔ غرض ارب پتی آدمی
بھی اپنے کام خود کرتا نظر آئے گا۔ جاپانی لوگ صرف اپنے شعبے میں ماہر ہوتے ہیں،
انہیں دوسروں کے کاموں کا کچھ نہیں معلوم ہوتا اور نہ ہی یہ جاننا چاہتے ہیں، یعنی
ایک جاپانی ڈاکٹر بہترین ڈاکٹر ہو گا، ایک وکیل بہترین وکیل ہوگا، ایک سو پر بہترین
صفائی کرنے کا ماہر ہو گا، یعنی ہر آدمی اپنے کام میں ماہر ہے ۔ یہی وجہ
ہے کہ جاپان کی بنی ہوئی
ہر چیز بہترین معیار کی ہوتی ہے۔ اس کے بر عکس ہمارے ملک میں ہر فرد اپنے کام میں
صفر اور دوسرے کے کام میں نقائص نکالنے میں ماہر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چیزوں کا
معیار انتہائی کمتر ہوتا ہے۔ جاپان میں ہر کاروبار میں حکومت نے آسانی پیدا کر رکھی
ہے۔ ہر شعبے میں ون ونڈو آپریشن ہوتا ہے جبکہ ہمارے ملک میں ایک کاروبار کے لیے
بارہ بارہ جگہ سے منظوری لینی پڑتی ہے اور ہر جگہ رشوت کا بازار گرم ہے، لہذا
پاکستانی قوم کو جاپان سے سیکھنے کے لیے بہت زیادہ چیزیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے
کہ ہم نہ صرف جاپان سے سیکھیں اور اپنے ملک میں بھی جاپان سے سیکھی ہوئی چیزوں کو
لاگو کریں ورنہ ہم صرف
دنیا کی ترقی کو دیکھ کر متاثر ہی ہوا کریں گے ، کبھی ترقی نہیں کر سکیں گے۔