سائنسی سوال۔۔۔۔۔۔ سائنسی جواب
سوال: عموماََ سننے میں آتا ہے کہ ہوائی جہاز کے ساتھ اگر کوئی پرندہ (مثلاًچڑیا کوا وغیرہ)ٹکرا جائے تو ہوائی جہاز کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور وہ تباہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بات کس حد تک درست ہے؟
جواب:
آپ نے صحیح پڑھا۔چھوٹے طیاروں اور پرانی طرز کے جیٹ ہوائی جہازوں کے لیے پرندے آج
بھی ایک اہم خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ پنکھڑیوں والے طیارے ہوں یا جیٹ انجن
والے ،دونوں کا اصول ایک ہی ہے
وہ
آگے کی جانب سے ہوا کو کھینچتے ہیں اور بڑی طاقت کے ساتھ (ایک زبردست جھکڑکی شکل
میں) پیچھے کی طرف پھینکتے ہیں۔ یہی وہ قوت ہے جو انہیں ہوا سے زیادہ وزنی ہونے کے
باوجود پرواز کے قابل بناتی ہے۔ لیکن اگر کبھی ہوا میں اڑتے ہوئے پرندے سامنے سے
آجائیں،تو وہ بھی ہوا کے ساتھ کھنچتے ہوئے ان کے انجن کی پنکھڑیوں سے آٹکراتے
ہیں۔جس کی وجہ سے پنکھڑیوں کے گھومنے کا عمل
متاثر ہوتا ہے، پرواز ناہموار ہو سکتی ہے اور طیارہ زمین پر بھی گر سکتا
ہے۔
ائیر
پورٹ کے آس پاس اڑنے والے پرندے آج بھی نہ صرف شہری ہوا بازی (سول ایوی ایشن) بلکہ
فوجی ہوائی اڈوں کے لیے بھی ایک مستقل مسئلے کا درجہ رکھتے ہیں۔
یہی
وجہ ہے کہ ہوائی اڈوں پر ہمہ وقت ایسا عملہ تعینات رکھا جاتاہے جو خصوصاً رن وے کے
آس پاس اڑنے والے پرندوں کو مار گراتا رہتا ہے، یا پھر انہیں وہاں سے دور رکھتا ہے
۔اس مقصد کے لیے خاص طرح کے آلات بھی استعمال کئے جاتے ہیں، جو ایسی آوازیں پیدا
کرتے ہیں جو پرندوں کو خوفزدہ کر دیتی ہیں اور انہیں رن وے سے دور رہنے پر مجبور
رکھتی ہیں۔
غرض
یہ کہ جب سے ہوائی جہازوں میں سفر کا سلسلہ شروع ہوا ہے،تب سے ان پروازوں کو
پرندوں کا خطرہ بھی لاحق ہے۔ ہوا بازی کی
تاریخ میں ایسے کئی حادثات ہوچکے ہیں کہ کسی طیارے کے انجن سے کوئی چھوٹا سا پرندہ
آٹکرایا اور اس سے پورا طیارہ ہی تباہ ہو گیا۔ البتہ،حالیہ چند برسوں کے دور ان
دواہم باتیں ایسی ہوئی ہیں کہ جن کی وجہ سے پرندوں کے اس خطرے میں کچھ کمی آگئی
ہے۔
اول
یہ کہ آج ایک عام مسافر بردار جیٹ طیارہ بھی تیس ہزار (30,000) فٹ یا اس سے
بھی زیادہ بلندی پر رہتے ہوئے پرواز کرتا ہے۔ یہ بلندی اس قدر زیادہ ہے کہ کوئی پرندہ
بھی اس تک نہیں پہنچ سکتا۔
لہذا،
اب بڑے جیٹ طیاروں کو پرندوں سے صرف ان مواقع پر خطرہ لا حق رہ گیاہے کہ جب وہ فضا میں بلند ہورہے (یعنی ٹیک آف کر رہے)
ہوں،یا پھر زمین پر اتر رہے (لینڈنگ کر رہے) ہوں۔
جیٹ
انجن والے طیارو ں میں دوسری اہم ترقی کا تعلق حفاظتی اقدامات سے ہے۔آج کل مسافر
بردار جیٹ طیاروں کے انجن اتنے بڑے اور طاقتور ہوتے ہیں کہ چھوٹے پرندے (جیسے کہ
چڑیاں اور کوے وغیرہ) ان کا کچھ نہیں بگاڑسکتے۔ تاہم، پرواز کو ہر ممکن حد تک
بحفاظت بنانے کے لیے آج کے جیٹ انجنوں کو کچھ سخت قسم کی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا
ہے، اور ان میں کامیاب ہونے کے بعد ہی انہیں کسی طیارے میں نصب ہونے کے قابل
قراردیا جاتاہے۔
ان آزمائشوں میں کسی جیٹ انجن کو پوری طاقت سے
چلایا جاتا ہے اور "برڈگن" (مردہ پرندے پھینکنے والی مشین) کے ذریعے اس
کی طرف مردہ پرندے اچھالے جاتے ہیں۔آزمائش میں کامیاب ہونے کے لیے ضروری ہوتا ہے
کہ اس جیٹ انجن کی پنکھڑوں دو پونڈوزن والے آٹھ پرندوں،یا پھر آٹھ پونڈوزن کے ایک
پرندے سے تصادم کو برداشت کر جائیں۔
دلچسپی
کے لیے مزید بتاتے چلیں کہ آج کل"ٹربوفین" کہلانے والے جیٹ انجنوں کے
پنکھے (fans) اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ان کی چوڑائی تین
میٹر (تقریبا دس فٹ) ہوتی ہے۔ ٹیک آف کرنے
کے لیے جیٹ طیارے کو درکارقوت (تھرسٹ) حاصل کرنے کی غرض سے ان پنکھوں کو 3,600 چکر فی منٹ (3,600 آرپی ایم ) کی رفتار سے گھمایا جاتا ہے۔
جیٹ
انجن کے ان دیوقامت پنکھوں کی ہر ایک پنکھڑی (blade) کا وزن 35سے 40 پونڈ ہوتا ہے؛ اور پوری رفتار سے گھومتے دور
ان ایسی ہر پنکھڑی میں بہت زیادہ توانائی جمع ہو جاتی ہے۔
معلوم ہے یہ توانائی کتنی ہوتی ہے؟
اگر کسی حادثے کی وجہ سے (گھومتے دوران) جیٹ
انجن کی ایک پنکھڑی بھی ٹوٹ جائے،تو اس سے اتنی توانائی پیدا ہوگی کہ جس سے اوسط
وزن والی ایک کارکوپچاس فٹ اونچائی تک اٹھایا جا سکے گا!
یہی
وجہ ہے کہ جیٹ انجن کی پنکھڑیوں (بلیڈز) کا اتنا مضبوط ہونا لازمی ہے کہ وہ اچھے
خاصے وزنی پرندوں سے تصادم برداشت کرسکیں۔
امریکہ
کی "فیڈرل ایوی ایشن اتھارٹی"(FAA) نے جیٹ انجنوں
کے لیے انتہائی سخت حفاظتی معیارات مقررکئے ہوئے ہیں،جن پر پورا اترنے کے بعد ہی
کسی جیٹ انجن کو طیارے میں نصب کیا جاتاہے۔ ایسے ہی ایک معیارے کے مطابق،جیٹ انجن
کے لیے لازم ہے کہ وہ کسی بھاری پرندے سے ٹکرا جانے کے بعد بھی تقریبا بیس منٹ تک
پوری طاقت سے گھومتا رہے۔ ہنگامی حالات میں یہ وہ کم سے کم وقت ہے جو کسی اڑان
بھرنے والے طیارے کو مناسب بلندی تک پہنچنے کے لیے درکار ہوتا ہے، تا کہ وہ اپنا
اضافی ایندھن گراکرخودکو ایمرجنسی لینڈنگ کے لیے تیار کر سکے۔ کسی جیٹ انجن کے بنتے دوران اس جیسی کئی آزمائشیں ہوتی ہیں،
اور ان میں انجن کو پوری طاقت سے چلایا جاتا ہے ۔آزمائش میں کامیاب ہوجانے والے
انجن ہی کو طیارے میں نصب کرنے کے لیے منظور کیا جاتا ہے۔
البتہ
،ان سخت معیار کی پابندی کے نتیجے میں جیٹ انجنوں کی قیمت بھی بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔
اس کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتاہے کہ آج کے ایک ٹربوفین انجن کی لاگت ایک کروڑ
پچاس لاکھ امریکی ڈالر (تقریبا ڈیڑھ ارب پاکستانی روپے) جتنی ہوتی ہے؛ اور اس کی
صرف ایک پنکھڑی کی قیمت بھی ایک مہنگی کار سے زیادہ ہوتی ہے! یقیناً یہ قیمت بہت
زیادہ ہے،لیکن آج کے جیٹ طیاروں میں ہوائی سفر بھی بہت محفوظ ہے۔