سعودی
عرب کے بادشاہ سعود مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں میں سب سے زیادہ دولت حکمران ہیں وہ
اگرچہ ایک بےآب و گیاہ علاقے کے فرمانروا ہیں لیکن یہ بے آب و گیاہ دھرتی اپنے
سینے سے وہ گراں بہاخزانہ اگل رہی ہے جو آج دنیا کی سیاسی اور معاشی زندگی میں سب
سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے یعنی پٹرول۔
دریافت کا سہرا
سعودی
عرب کی اس بے بہا دولت کا ذخیرہ طہران نجد میں واقع ہے اس عظیم الشان ذخیرہ کی
دریافت کا سہرا شاہ سعود کے والد مرحوم سلطان عبدالعزیز ابن سعود کے سر ہے انہوں
نے 1933ء میں کیلی فورنیا آئل کمپنی کو کھدائی اور تحقیق و تفتیش کی اجازت دی۔ اور
کمپنی کے کارکنوں کو سہولتیں بہم پہنچائیں۔ کمپنی نے تلاش اور کھدائی کا کام 1933ء
میں شروع کیا۔
ابتداء
میں جو امریکن اس سر زمین پر اترے انہیں مجبورا عربوں کا لباس پہننا پڑا اور
داڑھیاں رکھنی پڑیں ان کی حفاظت کے لئے ہر وقت ان کے ساتھ ابن سعود کا فوجی دستہ
رہتا تھا ابتدائی دور بڑا ہی ہمت شکن اور تکلیف دہ تھا۔ انہیں ضروری مشینوں اور
اوزار سے لے کر نجی ضروریات کی چھوٹی چھوٹی چیزیں تک امریکہ سے منگوانی پڑتی تھیں۔
صحرائے
عرب کی خشک اور گرم آب وہوا بدوی زندگی اور بے مزہ ماحول بھی ان کے لئے کچھ کم
مصیبت کا باعث نہ تھا اس پر طرہ یہ کہ عرب کے باشندے انہیں ناقابل اعتماد نظر سے
دیکھتے تھے۔ پھر ریت کے لامتناہی سمندر میں پٹرول کی تلاش بڑے صبر اور ہمت کی طالب
تھی۔
ظاہری
حالات اگرچہ انتہائی مایوس کن تھے لیکن امریکن پوری استقامت کے ساتھ ان سے
نبردآزما ہونے کے لئے تیار ہوگئے۔ پہلا کنواں کثیر مصارف اور مہینوں کی سخت ترین
جدوجہد کے بعد کھودا گیا مگر ناکامی ہوئی پھر دوسرا کنواں کھودا گیا لیکن نتیجہ
وہی صفر نکلا پھر تیسرے کنویں کی کھدائی شروع ہوگئی پورے عزم اور امید کے ساتھ
مہینے پر مہینے گذرتے چلے گئے اور مصارف ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں ڈالر تک پہنچ گئے
لیکن گوہر مقصود پھر بھی ہاتھ نہ آیا۔
اب
نئی امیدوں اور نئے عزم کے ساتھ چوتھا کنواں کھودا گیا لیکن کئی مہینے کی صبر آزما
جدوجہد کے بعد ان کی ہمت جواب دینے لگی اور مایوسی ان کے عزائم پر چھانے لگی انہیں
محسوس ہوگیا کہ وہ ایک غلط جگہ پر اپنی دولت اور محنتیں ضائع کررہے ہیں۔
ادھر
امریکہ میں ان مستقل ناکامیوں کی خبریں پہنچیں تو کمپنی کے حصے دار جمع ہوئے حساب
لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ 30 لاکھ ڈالر ان کوششوں میں ضائع ہوگئے ہیں اور ملا ایک
پیسہ بھی نہیں کمپنی کے سامنے اب یہ سوال تھا کہ کیا محنت و دولت کی اس بربادی کے
پیش نظر تلاش کا کام بند کردیا جائے۔ بحث مباحثے کے بعد یہی فیصلہ ہوا کہ دولت اور
محنت کو اس طرح برباد نہیں ہونے دینا چاہیئے چنانچہ ازسر نو یہ کام شروع کیا گیا
اور نئے ماہرین بھیجے گئے اور پہلے سے زیادہ اہتمام کے ساتھ پانچوں کنوئیں کی
کھدائی شروع کردی گئی پچھلی کوششوں میں یہ تو اندازہ ہوچکا تھا کہ یہ بے آب و گیاہ
سرزمین اپنے سینے میں وقت کی اس بے بہا دولت کو ضرور چھپائے ہوئے ہے۔
پانچویں
کنویں سے جو تیل نکلا وہ مصارف کے مقابلے میں ایک فی صد بھی نہ تھا اب فیصلہ کیا
گیا کہ ایک آخری کوشش کرکے اور دیکھ لیا جائےاب کے دو کنوئیں ایک ساتھ کھودے گئے
کمپنی کے منیجر اور حصہ داروں کو لمحے لمحے کی خبریں بھیجی جارہی تھیں پہلے
پانچواں اور چھٹا کنواں پائہ تکمیل کو پہنچا لیکن ایک مہیب ناکامی اور بھیانک
مایوسی کے سوا کچھ نہ تھا۔
امید کا سورج طلوع ہوگیا
اب
کمپنی کے کارکن واپس جانے کی تیاری کررہے تھے اگرچہ وہ خوش تھے کہ وہ ایک سخت اور
تکلیف دہ سرزمین سے نکل جائیں گے لیکن ان کے دل شکستہ اور مایوسی و ندامت کی اتھاہ
گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ وہ ایک تکلیف دہ خاموشی کے ساتھ صدر دفتر سے واپسی کے
احکام کا انتظار کررہے تھے کہ کیلی فورنیا سے تار پہنچا لیکن وہ تار واپسی نہ تھا
بلکہ اس میں انہیں کام جاری رکھنے کا کہا گیا تھا کہ جنرل منیجر خود آرہے ہیں اور
ڈالروں اور مشینوں اور آلات کا جہاز بھی پہنچ رہا ہے۔
نئے
عزم اور نئی امیدوں کے ساتھ ساتواں کنواں کھودا جانے لگا تقدیر اپنا فیصلہ دے چکی
تھی کنواں مکمل ہوتے ہی زمین کا جگر پھوٹ گیا۔ اور اس کے سینے میں چھپی ہوئی دولت
ایک طوفان کی طرح ابل پڑی یہ مارچ 1938ء کا واقعہ ہے۔
یہ
کنواں ایک کنواں نہ تھا بلکہ ایک سمندر تھا متلاطم اور طوفان خیز سمندر۔ اس سمندر
نے تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کردیا اور سعودی عرب کے بے آب وگیاہ ملک کو
پورے مشرق وسطیٰ میں زبردست اہمیت عطا کردی۔