مودی
کے خلاف دنیا بھر کے504 سائنسدانوں نےخط لکھا ہے کہ یہ خط مودی حکومت کے منہ پر
طمانچہ ہے جو کہتی ہے کہ ہم نے تمام شہری آزادیاں بحال کردی ہیں۔ ان 504 اعلیٰ
تعلیم یافتہ شخصیات نے شہری حقوق کی پامالی پر اپنی ہر بات کے ثبوت میں کئی حوالے
بھی دیئے ہیں جن میں تمام حوالے بھارت،
عرب ممالک کے میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ لکھنے والے بھی زیادہ تر ہندو ہیں۔ خط
لکھنے والوںمیں آکسفورڈ یونیورسٹی کے آنند مانی، چارلس ڈارون یونیورسٹی کے خالد
خان، CAItech یونیورسٹی کی زویا، عالمی
سنٹر برائے تھیورٹیکل سائنس کے سومیت کماربروا، یونیورسٹی آف واٹرلو کے روی موزم
دار، سینٹ پیٹرز لاء کالج کی کرن گیرئیل، یونیورسٹی آواروک کے شیرون موکنڈ،
یونیورسٹی آف مسسپی کے میگھنا بٹھاچاریہ، بنگلور کے انڈین سٹیٹس ٹیکل انسٹیٹیوٹ کے
ادواس، یونیورسٹی آف پنسلوینیا کے پراگیاسرواستاوا، انسٹی ٹیوٹ آف ریاضی سائنس کے
سورے چوہدری اور املن چکرورتی، جان ہاپکنز یونیورسٹی کے وشال بائی بھابو، ٹاٹا
انسٹی ٹیوٹ کے جنید مجید، اجی سود پرکاش، تونیر چکرورتی سورت رائے اور ادیپ
اگروال، انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی جرمنی کے سائن تان بیگ، میکس پلانک انسٹیٹیوٹ آف
جرمنی کے سومیت کمار، یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے وکرم پھوکن، رٹگرز یونیورسٹی کے
ادیتی دوجید، سنٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے ایم اے صوفی، ہارورڈ یونیورسٹی کے آرتی
سیٹھی اور سینٹ سٹیفن کالج کے شراڈ لیلے سمیت بھارت کی تمام اہم یونیورسٹیز کے
پروفیسرز اور صدر ہائے شعبہ شامل ہیں ۔ خط کا متن حسب ذیل ہے۔
21
ستمبر 2019
جناب
وزیراعظم نریندر مودی صاحب
ہم
سب سائنس دان اور ماہرین تعلیم کے ایک گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہماری اس تحریر کا
مقصد جموں و کشمیر کے بحران پر اپنی گہری تشویش سے آپ کو آگاہ کرنا ہے۔لاک ڈاؤن کو
دوماہ ہوچکے ہیں۔ اور اس سورتحال نے جموں و کشمیر کو خصوصی سٹیس دینے والے آئین کے
آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے فیصلے سے جنم لیا ہے لاک ڈاؤن سے جموں و کشمیر کا
ریاستی تشخص ختم ہوگیا ہے اس وقت سے حکومت نے کشمیر میں نقل و حمل پر پابندیاں
عائد کررکھی ہیں حکومت مخالف رہنماؤں اور افراد کو نظر بند کردیا گیا ہے، ریاست کو
فوجیوں سے بھر دیاگیا ہے، ریاست میں فوجیوں کا سیلاب آگیا ہے۔
بطور
دستخط کنندگان اگرچہ آئین کے آرٹیکل کی تنسیخ کے بارے میں ہم مختلف نکتہ نظر کے
حامل ہیں مگر ہم سب ان نکات پر کلی طورپر ہم آہنگ ہیں کہ ہم کشمیر میں جاری لاک
ڈاؤن، ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم اور انٹر نیٹ کی بندش کے حکومتی فیصلے پر حیرت زدہ
ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ کچھ حصوں میں زمینی ٹیلی فون لائنیں بحال کردی گئی ہیں۔مگر
یہ کشمیر میں ایک فیصد سے بھی کم حصے میں سروس مہیا کرتی ہیں۔ خود حکومت کے اعترافات
کے مطابق وہ عوام کو سروسز مہیا کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ہمارے
اپنے اداروں میں طالب علم اپنے رشتے داروں سے رابطہ نہ ہونے پر کرب میں مبتلا ہیں
مزید براں، ٹھوس اور جامع اطلاعات اس امر کی تصدیق کرتی ہیں کہ کشمیر میں عوام کو
ادویات اور طبی سہولیات اور حتیٰ کے تعلیمی اداروں تک رسائی کو بھی مشکل تر بنادیا
ہے۔ ان کے لئے ضروریات زندگی کا حصول بھی مشکل ہے ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت مخالف
رہنماؤں کی نظر بندیوں اور نقل حمل کو محدود کرنے کے اقدام کو ہم قطعی غیر جمہوری
سمجھتے ہیں ۔ کسی کا کوئی بھی نکتہ نظر کیوں نہ ہو مگر جمہوری ملک میں کسی کو بھی
یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے مخالف سیاست دانوں کو کسی بھی الزام کے بغیر نظر بند
کردے۔
یہ
بنیادی جمہوری حق کے منافی ہے ہمیں کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے انسانی حقوق
کی خلاف ورزیوں کی متعدد رپورٹیں ملی ہیں۔ ہم کشمیریوں اور ان تمام لوگوں سے اظہار
یکجہتی کرتے ہیں جنہیں بھارتی اقدامات سے پریشانی ہوئی ہے ہم حکومت کو اس کا فرض
یاد دلانا چاہتے ہیں کہ عوام کی فلاح و بہبود کے کام کرنا بنیادی تقاضا ہے، حکومت
فی الفور تمام رابطے بحال کرے، سیکورٹی کی پابندیاں ختم کرے، اور گرفتار شدگان کو
فی الفور رہا کرے ۔ وہاں انسانی حقوق کی پامالی کی اطلاعات کی غیر جانبدارانہ اور
شفاف انکوائری کروائے۔