اقتدار کا نشہ جہاں بھی ہو سر چڑھ کر بولتا ہے پھر چاہے وہ اقتدار سیاست کا ہو ، کھیل کا یا پھر سائنس و ٹیکنالوجی کا ۔ اور جہاں تک سائنس و ٹیکنالوجی کی بات ہے تو ہر قسم کی نت نئی ٹیکنالوجی کا سہرا امریکہ کے سر پر ہے اور وہ یہ سہرا اتارنا نہیں چاہتا۔ پھر چاہے وہ سائنسی علوم کی بات ہو یا جدت میں آگے بڑھے ہوئے ٹیکنالوجی کے بھوت کی۔
آج کی دنیا کو موبائل کی دنیا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ غریب سے غریب کے ہاتھ میں بھی موبائل ضرور نظر آتا ہے پھر چاہے اس کو کھانا ملے نہ ملے مگر موبائل میں کریڈٹ کا ہونا ایک لازمی امر ہے۔
اینڈرائیڈ کی دنیا میں ایپلیکیشنز جس تیزی سے پھیل رہی ہیں اس کا تو حساب ہی نہیں ہے ایک نئی ایپ آتی ہے اور گھنٹوں میں دنیا میں چھا جاتی ہے اور گوگل دور میں جہاں امریکہ کی گہری چھاپ نظر آتی ہے وہاں دوسری ایپ کا کامیاب ہونا ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہوتا ہے۔ ہم نے دیکھا گوگل کے مقابل جو بھی آیا وہ یا تو خرید لیا گیا یا پھر گمنا کردیا گیا۔ لیکن اگر کسی ملک کی ایپ خصوصی طور پر وہ ممالک جو اس کو ایک آنکھ نہیں بھاتے اس کا مستقبل سوائے مقبولیت کے اورکچھ نہیں ہوتا اور اس مقبولیت کو بھی کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
آج کے دور میں سب سے بڑا ایشو سکیورٹی کا بنایا جاتا ہے۔میں کسی ایسی ایپ کی حمایت میں نہیں ہوں جو عریانی اور فحاشی میں ممد و معاون ہو۔ مگر جس ایپ کی وجہ سے یہ تحریر لکھی جارہی اس کی ٹرم اینڈ کنڈیشنز میں یہ واضح ہے کہ اس ایپ کے ڈیٹا کو کمرشل کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے مگر اس کی پرائیویسی کیا ہے اور کیا ہونی چاہیئے یہ آج کا مقصد نہیں بلکہ حقائق پر تجزیہ کرنا اور غور و فکر کرنے سے کچھ اور ہی اشارات سامنے آتے ہیں۔
دنیا بھر میں ٹاپ سوشل ایپلیکیشنز تمام کی تمام امریکن ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ سیکیورٹی کے معاملے میں محفوظ ہیں مگر امریکی ایجنسیوں کی رسائی اندرون سرورز تک بھی یقینی ہے ۔ فیس بک کی جاسوسی اور سکیورٹی کے معاملات تو گاہے بگاہے سامنے آتے رہتے ہیں اور ان کو کور کرنے کے لئے فیس بک انتظامیہ کا ڈرامہ بھی رچایا جاتا ہے مگر وہ معاملات ایسے نہیں ہوتے کہ ان پر الزام لگایا جاسکے کہ یہ لوگوں کی پرائیویسی کے لئے شدید خطرہ ہے یا سب سے بڑھ کر کہ امریکہ کی سالمیت کے لئے خطرہ ہے اور ایسا ہونا بھی نہیں چاہیےکیونکہ درپردہ امریکی ایجنسیوں کی رسائی اور ان کی معاونت میں ہی وہ کام کرہی ہیں مگر وہ کاروبار اور سکیورٹی کو الگ الگ دکھاتے ہیں۔گویا کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ امریکی ایپلیکیشنز لوگوں کی پرائیویسی کے لئے محفوظ ہیں یا ان کے ڈیٹا سرورز تک کوئی نہیں جاسکتا بلکہ گوگل کے بارے میں تو یہ بھی کہا جاتا ہے اور ماہرین اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ گوگل ہر سرچ کی جاسوسی کرتا ہے اور امریکی سالمیت کے لئے مخصوص الفاظ بھی جاسوسی کی زد میں آئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ تو کیا دنیا بھر کی سالمیت میں سے صرف امریکہ کی سالمیت ہی ضروری ہے۔۔۔؟
جبکہ دوسری طرف غیر امریکی ایپلیکیشنز یا پروڈکٹ مارکیٹ میں متعارف کرائی جاتی ہے تو ایک الگ بازار گرم ہوجاتا ہے۔نئی آنے والی ایپ کے متعلق طرح طرح کی افواہ سازی کی جاتی ہے، الزامات عائد کئے جاتے ہیں ہوسکتا ہے وہ سچ بھی ہوں مگر دیکھنے والے اسے ایک اور ہی نگاہ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔اس سے نہ صرف یوزر کم ہوتے ہیں کاروبار متاثر ہوتا ہے بلکہ اپنی اجارہ داری بھی قائم رہتی ہے۔
پھر جب معاملہ اور مقابلہ چھوٹے بڑے کا ہو تو بڑا ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرکے جیت ہی جاتا ہے اور یوزر چونکہ بڑے سے متاثر ہوتے ہیں اس لئے چھوٹے کو عموما مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
فیس ایپ کے متعلق بھی کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے کیونکہ اس سے دیگر امریکی ایپلیکیشنز متاثر ہوتی ہیں یوزر کا رجحان ان کی بجائے نئی ایپ کی طرف ہوتا ہے ۔جب کہ فیس ایپ کی انتظامیہ بھی امریکہ کے اس الزام کی تردید کرچکی ہے اور روس کی حکومت بھی ۔ ادھر دوسرے تجزیہ نگاروں کی بھی یہی رائے ہے کہ روس چونکہ امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اس لئے یہ سازش کی گئی کیونکہ کچھ ایسی ہی سازش چائنہ کمپنی ہواوے کے لئے بھی کی گئی تھی مقصد صرف اسے تجارتی پسپائی تھی نہ کہ امریکہ کی سالمیت مگر ڈھونگ کچھ اور رچایا گیا اور اب فیس ایپ کا معاملہ بھی ایسا ہی نظر آرہا ہے۔
جبکہ فیس ایپ کی انتظامیہ نے یوزر کو تمام ڈیٹا ڈیلیٹ کرنے کا طریقہ بھی بتا دیا ہے۔ اس میں چند کاروباری دن تو لگ سکتے ہیں مگر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یوزر کا ڈیٹا مکمل ڈیلیٹ کردیا جاتا ہے۔
یہاں ایک بات انتہائی اہم اور قابل توجہ ہے کہ ہر نئی ایپ کو بلاوجہ استعمال کرنا کہاں کی عقل مندی ہے جس میں تفریح تو برائے نام ہو مگر نقصان کا اندیشہ زیادہ ہو اور دوسرے قبیحات الگ جن کا ذکر سردست ضروری نہیں مگر یوزر تو بے لگام اور سستی شہرت کے لئے ان ایپ کو استعمال کرتا ہے ۔تفریح تو بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔