How fingerprints diagnose health and crime | فنگر پرنٹس سے صحت اور جرائم کی تشخیص کیسے

 فنگر پرنٹس سے صحت اور جرائم کی تشخیص کیسے

نشانات انگشت (فنگر پرنٹس) کا استعمال جرائم کی تفتیش ہی نہیں، بلکہ عمومی شناخت کے معیاری طریقوں میں بھی شامل ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند سال پہلے نادرا (اداکارہ نہیں بلکہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی( نے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈوں کیلئے انگلیوں کے نشانات لازمی قرار دے دیئے تھے جس سے واقعی بہت فائدہ ہوا۔ لیکن بہت جلد نشانات انگشت کا کردار صرف یہیں تک محدود نہیں رہے گا۔

 

How fingerprints diagnose health and crime | فنگر پرنٹس سے صحت اور جرائم کی تشخیص کیسے

جرمنی کے پومپی ہزار یکا نے یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا کے پروفیسر ڈیوڈ رسل کی معاونت سے ایک ایسی نئی تکنیک وضع کر لی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے ۔ صرف نشانات انگشت کی مدد سے نہ صرف یہ بتایا جا سکتا ہے کہ چند گھنٹوں پہلے آپ نے ممنوعہ ادویہ لی ہیں یا نہیں، بلکہ یہ تک پتا چلایا جا سکتا ہے کہ آپ کی صحت کا کیا حال ہے۔

 

اگر آپ اسے مذاق یا دور کی کوڑی سمجھ رہے ہیں تو خبر کی تفصیل ملاحظہ فرما لیجئے ۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ جب تفتیشی ماہرین جائے وقوعہ پر پہنچتے ہیں اور انہیں وہاں سے ملزمان کی انگلیوں کے نشانات حاصل کرنے ہوتے ہیں تو وہ سیاہ رنگ کا سفوف اُن نشانات پر چھڑکتے ہیں۔ یہ سفوف در اصل آئرن آکسائیڈ کے چھوٹے چھوٹے ذرات پر مشتمل ہوتا ہے، جو ان نشانات سے چپک کر انہیں نمایاں کر دیتا ہے۔ لیکن یہ سفوف صرف انگلیوں کے نشانات ہی سے نہیں چپکتا بلکہ اُن میں موجود پانی ، معدنیات اور اُن روغنیات کو بھی اپنے ساتھ چپکا لیتا ہے جو متعلقہ فرد کی انگلیوں پر لگے ہوتے ہیں، اور ان نشانات کے ساتھ ساتھ کسی سطح پرمنتقل ہو جاتے ہیں۔

 

اس کا مطلب یہ ہوا کہ کم از کم اصولی طور پر نشانات انگشت حاصل کرنے کے علاوہ، اسی سفوف کو ان دوسرے مادوں کا سراغ لگانے میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ... اور یہی ہزاریکا اور رسل کا کارنامہ ہے۔ انہوں نے آئرن آکسائیڈ کے ذرات میں تھوڑی سی ترمیم کر کے ان کے ساتھ مختلف اینٹی باڈیز ( ضد جسمئے ) منسلک کر دیئے ۔ اس آمیزے کی خصوصیات برقرار رکھنے کیلئے انہوں نے اسے ایک خاص محلول میں رکھا۔ جب اس آمیزے کو نشانات انگشت پر چھڑکا جاتا ہے تو آئرن آکسائیڈ کی وجہ سے وہ نشانات نمایاں ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر اینٹی باڈی کا مخصوص ہدف (یعنی ایسا کوئی مادہ جو اُس اینٹی باڈی سے مطابقت رکھتا ہو) بھی ان نشانات میں موجود ہو تو اینٹی باڈی بھی اس سے چمٹ جاتی ہے اور روشنی خارج کرنے لگتی ہے۔ اس طرح تفتیش کاروں کو پتا چل جاتا ہے کہ پچھلے چند گھنٹوں کے دوران متعلقہ شخص نے کیا کچھ استعمال کیا تھا۔

 

فی الحال اس تکنیک کی مدد سے وہ نشانات انگشت میں نکوٹین اور چار نشہ آور ادویہ شناخت کر سکتے ہیں: بھنگ (ماریجوانا)، کوکین، میتھا ڈون، اور میتھا ڈون سے ماخوذ ایک اور نشہ ۔انہیں امید ہے کہ وہ جلد ہی دوسری منشیات ، خاص کر افیم سے بننے والی دوائیں ( مثلا  ، ہیروئن اور مورفین وغیرہ ) بھی اس تکنیک کی مدد سے شناخت کرنے کے قابل ہو جائیں گے، کیونکہ ان کیلئے اینٹی باڈیز پہلے ہی سے دستیاب ہیں۔ مزید پختہ ہو جانے کے بعد یہ تکنیک صرف دواؤں اور منشیات ہی کا سراغ لگانے کے قابل نہیں ہوگی ، بلکہ اس سے سرطان، ذیا بیطس، امراض قلب اور دوسری کئی بیماریوں کا پتا بھی ( بذریعہ نشانات انگشت ) لگایا جاسکے گا، کیونکہ ان عوارض کے دوران جسم سے جدا گانہ قسم کے مادوں کا افراز ہوتا ہے جو پسینے کے ساتھ بھی جسم سے باہر(ہاتھوں پر بھی)خارج ہوتے ہیں۔

 

ان اضافی فی معلومات کی مدد سے پولیس کیلئے تفتیش بڑھانا آسان ہو جائے گا۔ مثلاً جب نشانات انگشت کے ذریعے پولیس کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ ملزم کو دل کی تکلیف ہے تو وہ ہسپتالوں اور شفاء خانوں میں اُس خاص بیماری میں مبتلا افراد کی کھوج کر سکتی ہے، بالخصوص ایسے افراد کی جو پہلے سے مشکوک ہوں ۔ اسی طرح یہ تکنیک مختلف امراض کی تشخیص کو بھی مزید سہل اور تکلیف سے پاک بنانے میں مدد کر سکے گی۔ لیکن صرف اسی صورت میں جب یہ شخص کے مروجہ طریقوں کے مقابلے میں کم خرچ اور زیادہ موثر بھی ثابت ہو، جس کیلئے ابھی اسے بہت سارے مزید امتحانوں سے گزرنا باقی ہے۔

 

 البتہ، جہاں امیدیں ہیں وہاں اعتراضات بھی جنم لے رہے ہیں۔ مثلا پر ڈو یونیورسٹی ، امریکہ میں کیمیا کے پروفیسر، گراہم لکس نے ایک طرف تو اس تکنیک کو سراہا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ اس تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے مختلف افراد اور ادارے ایسی انفرادی معلومات، به آسانی حاصل کرنے کے قابل بھی ہو جائیں گے جو قانونی یا اصولی طور پر ان کے پاس نہیں ہوئی چاہئیں، خصوصا انشورنس کمپنیاں اس سے بہت غلط فوائد اُٹھا سکتی ہیں۔

 

 بہر کیف ابھی تو یہ تکنیک اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ فی الحال ہزاریکا اور رسل بھی یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اس تکنیک کو متعلقہ اداروں کیلئے دستیاب ہونے میں کتنا وقت درکار ہے اور اس پر کتنی لاگت آئے گی۔ البتہ اتنا ضرور طے ہے کہ ابتداء میں یہ تفتیش کی مروجہ تکنیکوں سے قدرے مہنگی ہوگی ۔ اس تکنیک کی تفصیلات جر من تحقیقی جرید Angewandte Chemie میں شائع ہوئی ہیں۔

(گلوبل سائنس جنوری 2009 ص 12، 13)

Post a Comment

0 Comments

ebay paid promotion