Kia Surrogate Jaiz hai ya Najaiz | سروگیسی کیا ہے

پیٹ برائے فروخت (از دانش احمد شہزاد)

زمانے کی جدت نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اس کی ایک مثال آج کل کی ایک گردش کرتی خبر ہے کہ بالی ووڈ کے معروف اداکاروں میں سروگیسی کے ذریعے بچے پیدا کرنے کی شرح دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے۔

سب سے پہلے ہم یہ جانیں گے کہ یہ سروگیسی ہے کیا؟ سروگیسی یہ ہے کہ ایک مرد کا سپرم لیا جائے اور اسی طرح اس عورت کا ایگ لیا جائے جس کا بچہ پیدا کرنا مقصود ہے اور پھر ان دونوں کے سپرم اور ایگ کو ایک ایسی عورت کی بچہ دانہ میں مصنوعی طریقے سے داخل کیا جائے کہ وہ اس کو نو ماہ اپنے پیٹ میں پالے اور یہ اس کی رضا مندی کے ساتھ ہوگا اور وہ اس کا کوئی بھی معاوضہ لے سکتی ہے۔ گویا کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک میاں بیوی کرایے پر بچہ دانی لیتے ہیں یا بیوی بچے کو جنم دینے کی تکلیف سے بچنے کے لئے ایسا کرتی ہے یا آج کل اپنی مصروفیات کے باعث اس کو اس طرح کرنا پڑتا ہے صورت کوئی بھی ہو مگر خلاصہ ہے کہ نو ماہ کا عرصہ ایک غیر عورت کی بچہ دانی بچے کا پیدا ہونا ہے۔

مگر یہاں ہم یہ بحث کریں گے کہ اسلام میں یہ جائز ہے یا نہیں یا اس کا کوئی نقصان ہے بھی یا نہیں اور کیا فائدے ہیں اور اخلاقی طور پر ایسا کرنا کیسا ہے۔

تو سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ ایسے کا کوئی حکم کوئی اشارہ اسلام میں نہیں ملتا جس سے اس سروگیسی کو جائز قرار دیا جاسکے۔ ہاں مگر اس کے برعکس ایک حدیث ملتی ہے کہ بچہ اسی کا ہوگا جس کے بستر پر پیدا ہو۔ اس سے بہت سی وضاحت ہو جاتی ہے گویا کہ بچے کی پیدائش کے لئے میاں بیوی کا آپس میں مباشرت  کرنا بھی ضروری ہے اس کا ثبوت قرآن سے ملتا ہے کہ ہم نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کی تسکین کا ذریعہ بنایا ہے۔ لہذا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ سروگیسی یعنی کسی اور کے رحم میں بچہ پیدا کرنا جائز نہیں۔

  پھر یہیں پر بس نہیں ہوتی بلکہ اس سے اخلاقی اقدار کو بھی بہت نقصان پہنچتا ہے۔ کیونکہ جب ایک بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنی ماں کی بے شمار خوبیاں ساتھ لے کر پلتا ہے ماں کا اپنے بچے کے ساتھ گہرا تعلق پیدا ہوتا ماں جب اس بچے کے لئے اپنا خیال رکھتی ہے تو اس سے بچے میں بھی احساس و جذبات کا رشتہ پروان چڑھتا ہے رشتوں کی قدر بڑھتی ہے جبکہ برعکس اس کے اگر یہی بچہ کسی اور کے پیٹ میں پل رہا ہو تو وہ ماں بچے کا نہ تو تعلق پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی احساس و جذبات کا سہی ادراک ہوتا ہے جبکہ رشتوں سے لاپرواہی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے جو بعد میں معاشرے کی خرابیوں کا باعث بن سکتا ہے۔

یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ماں نے تکلیف سے بچنے کے لئے یہ بوجھ ایک دوسری عورت پر ڈال دیا اور یہ بھی غلط اور احمقانہ خیال ہے یہ درست ہے کہ ماں ایک ایسی تکلیف سے گزرتی ہے جس کا حساب وہی لگا سکتی ہے جو اس تکلیف سے گزرتی ہے مگر اس تکلیف کے بعد بچے کو جنم دینے کی جو خوشی اور مسرت کا احساس پیدا ہوتا ہے وہ ویسے ہو ہی نہیں سکتا۔

اس سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سروگیسی کے ذریعے پیدا ہونے والے بچے رشتوں کا وہ احساس و جذبات اور ادراک نہیں کرسکتے جو اصل ماں کے پیٹ میں پلنے والے کرسکتے ہیں اس سے پھر معاشرے میں بھی نقصان ، لاپرواہی اور احساس کمتری  پیدا ہوتی ہے۔

لہذا سروگیسی کا عمل نہ صرف اچھا ہی نہیں بلکہ ناجائز اور قبیح بھی بن جاتا ہے جس میں بچے کو صرف لاپرواہی احساس کمتری ہی ملتی ہے فائدہ نہیں ہوتا۔

اللہ تعالیٰ دنیا کو ایسے عملوں سے بچائے جس سے معاشرے میں فساد پیدا ہونے کا ڈر ہو۔

Post a Comment

0 Comments

ebay paid promotion