ہم چومنے کو اظہار محبت کی ایک صورت سمجھتے ہیں لیکن صدیوں پہلے یہ رسم دنیا کے بہت سے علاقوں میں اظہار عقیدت یا اطاعت کے لئے استعمال ہوتی تھی۔بہت سے افریقی قبیلوں کے لوگ اس زمین کو چومتے ہیں جہاں ان کے سردار چلتے ہیں ہاتھ یا پاؤں چومنا قدیم وقتوں سے ہی احترام یا اطاعت کی علامت رہا ہے قدیم رومی لوگ کسی اعلیٰ شخصیت سے ملتے وقت اس کے منہ یا آنکھوں کو چومتے تھے۔ ایک رومی شہنشاہ نے اہم امراء کو اپنے ہونٹ چومنے کی اجازت دی، لیکن کم اہم امراء اس کے ہاتھ ہی چومتے تھے اور ان سے بھی کم درجے والوں کو صرف پیر چومنے کی اجازت تھی۔
عین ممکن ہے کہ محبت کے لئے چومنے کا رواج قدیم وقتوں سے تعلق رکھتا ہو جب ماں اپنے بچے کو پیار کیا کرتی تھی جیسے آج کی ماں کرتی ہے۔اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ چھٹی صدی عیسوی میں نوجوان مرد اور عورتیں ایک دوسرے کو چوما کرتے تھے۔ جس ملک میں چومنے کی رسم کو محبت میں سب سے پہلے شامل کیا گیا وہ فرانس ہے۔ جب رقص کا رواج عام ہوا تو تقریبا ہر مرحلے کا اختتام بوسے کے ساتھ ہوتا۔
چومنے کی رسم فرانس سے سارے یورپ میں تیزی سے پھیلی۔ فرانس کی روایات کو نقل کرنے کے شوقین روس نے بھی اسے اختیار اور وہاں کے تمام اعلیٰ طبقات اس کے عادی بن گئے۔ زار روس کا بوسہ اعلیٰ ترین شاہی اعزاز بن گیا۔
وقت گزرنے پر بوسہ درباری آداب کا حصہ بن گیا شادی کے رواج بننے پر بوسہ شادی کی تقریب میں بھی شامل ہوگیا بلاشبہ آج ہم بوسے کو اظہار محبت اور شفقت سمجھتے ہیں لیکن دنیا میں ابھی تک بہت سی جگہیں موجود ہیں جہاں بوسہ عام تقریبات کا حصہ ہے اور اس کا مقصد عقیدت و احترام دکھاتا ہے۔