شکاگو میں ایک بڑی پیش
رفت سامنے آئی ہے۔ایک وفاقی جج نے استغاثہ کی درخواست منظور کرتے ہوئے ماریمر
مارٹینیز کے خلاف تمام مقدمات ختم کر دیے ہیں۔ یہ وہ خاتون ہیں جو صدر ٹرمپ کی
امیگریشن کارروائیوں کے دوران ایک واقعے میں پھنس گئی تھیں۔
مارٹینیز امریکی شہری
ہیں، لیکن گذشتہ ماہ ان پر یہ الزام لگا کہ انہوں نے وفاقی افسران پر حملہ کیا اور
ایک ایجنٹ کی گاڑی کو ٹکر ماری، جس کے بعد ایجنٹ نے انہیں گولیاں مار دیں۔
انٹرویو میں مارٹینیز
نے اپنے زخم دکھائے:
انہیں بازو میں گولی
لگی، جو ان کے ٹرائسِپ سے گزری، اور پھر سینے کے پاس سے چھو کر نکلی۔ یہ زخم انہیں
4 اکتوبر کے اُس دن کی یاد دلاتے ہیں جب ان کی جان جا سکتی تھی۔
محکمہ ہوم لینڈ
سیکیورٹی کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے باڈر پٹرول کی گاڑی کو ٹکر ماری اور پھر ایجنٹ
نے گاڑی سے نکل کر انہیں کئی گولیاں میں ماریں۔
مارٹینیز کا کہنا ہے کہ
وہ صرف کپڑے دینے جا رہی تھیں کہ انہیں کچھ وفاقی ایجنٹس نظر آئے، جو حالیہ دنوں
میں شکاگو کے محلوں میں عام منظر بن چکے ہیں۔
وہ پڑوسیوں کو خبردار
کرنے کے لیے ہارن بجانے لگیں۔
ایک میکسیکن-امریکن اور
پہلی نسل کی امریکی شہری ہونے کے ناطے انہیں لگا کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ
لوگوں کو ICE کی موجودگی سے آگاہ کریں۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ ICE
نہیں بلکہ باڈر پٹرول کے لوگ تھے۔
ان کے مطابق وہ صرف ان
کے پاس سے گزرتے ہوئے ہارن بجا رہی تھیں کہ اچانک ان کی گاڑی کو دوسری گاڑی نے
سائیڈ سے ٹکر ماری۔ یہ بات باڈر پٹرول کے دعوے کے خلاف ہے کہ مارٹینیز نے جان بوجھ
کر ٹکر ماری تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ وہ
محفوظ جگہ جانے کی کوشش کر رہی تھیں، لیکن ایجنٹس نے ان پر فائرنگ شروع کر دی —
اور انہیں پانچ گولیاں لگیں۔
مارٹینیز کہتی ہیں کہ
اس واقعے پر بات کرنا اب بھی تکلیف دہ ہے، دل دہلا دینے والا ہے۔
گولیاں لگنے کے باوجود،
بعد میں انہی پر حملہ کرنے، مزاحمت کرنے اور اندرونی دہشت گرد قرار دینے جیسے
الزامات لگا دیے گئے۔
لیکن ایک اہم عدالت
سماعت میں، وہی ایجنٹ چارلس ایکسم جس نے فائرنگ کی تھی، نے گواہی دی کہ ٹکر شدید
نہیں تھی — صرف معمولی سی لگنی تھی، "رام" نہیں کیا گیا تھا۔
پھر عدالت میں اس ایجنٹ
کے ٹیکسٹ پیغامات سامنے آئے جن میں وہ شوٹنگ پر فخر کر رہا تھا:
"پانچ گولیاں، سات
سوراخ۔ اسے اپنی کتاب میں لکھ لو دوستو۔"
مارٹینیز کے وکیل — جو
پندرہ سال تک وفاقی پراسیکیوٹر رہے — نے کہا کہ انہوں نے اپنی پوری سروس میں کبھی
ایسا ایجنٹ نہیں دیکھا۔
پھر اچانک جمعرات کی
رات، استغاثہ نے خود ہی مقدمہ ختم کرنے کی درخواست کر دی۔
مقدمہ ختم ہونے کے
باوجود، DHS نے پھر بھی پرانے الزامات دہرائے:
کہ مارٹینیز نے ایجنٹس
کو ٹکر ماری، وہ نیم خودکار اسلحے سے لیس تھیں، اور وہ پہلے بھی وفاقی افسران کو
"ڈاکس" کر چکی ہیں۔
مارٹینیز نے سوال کیا
کہ یہ جھوٹی معلومات آخر مل کہاں سے رہی ہیں؟
حکام نے تصدیق کی کہ ان
کی گاڑی سے اسلحہ ملا، لیکن وہ ہولسٹر میں بند تھا اور کبھی نکالا ہی نہیں گیا۔ ان
کے پاس اسلحہ رکھنے کا لائسنس بھی ہے۔
ان کے وکیل نے کہا کہ DHS کے
دعوے ان کے اپنے ہی ایجنٹ کی گواہی کے خلاف ہیں، جس نے مانا کہ گاڑی کو نہیں
"رام" کیا گیا تھا۔
مارٹینیز کہتی ہیں کہ
وہ خوش ہیں کہ مقدمہ ختم ہو گیا، لیکن جسمانی اور ذہنی زخم اب بھی ان کے ساتھ ہیں۔
راتوں کو انہیں نیند
نہیں آتی اور وہ مسلسل اس دن کو یاد کرتی رہتی ہیں۔
مارٹینیز، جو مونٹیسوری
اسکول میں استاد ہیں، اب واپس بچوں کے پاس جانا چاہتی ہیں، مگر انہیں معلوم ہے کہ
زندگی پہلے جیسی نہیں رہے گی۔
FBI
ڈائریکٹر نے اس کیس کے بارے میں ایک ویڈیو ٹویٹ کی تھی، جو غلط تھی اور کیس سے
کوئی تعلق نہیں رکھتی تھی — مگر وہ ٹویٹ اب بھی موجود ہے۔
اس کیس کو ٹرمپ
انتظامیہ نے سپریم کورٹ میں اس لیے بھی پیش کیا کہ شکاگو میں نیشنل گارڈ بھیجنے کا
جواز پیش کیا جا سکے۔
مارٹینیز کے وکیل نے
ٹرمپ کے تعینات کردہ امریکی اٹارنی اینڈریو بوٹروس کی تعریف کی کہ سیاسی دباؤ کے
باوجود انہوں نے مقدمہ آگے نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا۔
بوٹروس کے دفتر نے کہا
کہ وہ ہمیشہ نئے شواہد کا جائزہ لیتے رہتے ہیں — جیسا کہ اس کیس میں بھی ضروری
تھا۔

