نفرت انگیز پیغامات بھیجنے یا آن لائن فرقہ واریت کو ہوا دینے والے افرادحکومت کے نشانے پر
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ شام کے ساحلی علاقے میں نئے حکام اور علوی برادری کے ارکان کے درمیان جھڑپوں کے دوران پورے خاندان مارے گئے، جو زیادہ تر سابق صدر بشار الاسد کے وفادار ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ اس نے 100 سے زائد شہریوں کے قتل کی دستاویز کی ہے، جن میں سے زیادہ تر سمری پھانسی کی صورت میں دیے گئے ہیں، اور توقع ہے کہ حتمی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔ رپورٹر نے ہمیں بتایا کہ یہ ہلاکتیں فرقہ وارانہ جنگ کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔ مانیٹر مرنے والوں کی تعداد صرف 1,100 سے کم بتا رہے ہیں۔
پیر کے روز، ایک اور پیش رفت کی اطلاع ملی: نئی حکومت نے کرد فورسز کو ملکی اداروں میں ضم کرنے کے لیے ایک معاہدہ کیا ہے۔ شامی رہنما احمد الشعرا اور سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کے رہنما ماز ایم ڈی آئی نے کہا کہ یہ معاہدہ پورے شام میں جنگ بندی قائم کرے گا اور شمال مشرق کے تمام اداروں کو شامی ریاست میں ضم کر دے گا۔
شام کے ساحلی شہروں کے مختلف علاقوں میں عینی شاہدین کے مطابق اب تک حالات پرسکون ہو چکے ہیں۔ وزارت دفاع نے خود اعلان کیا کہ انہوں نے آپریشن روک دیا ہے جہاں اسد حکومت کی باقیات کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں۔ ایک رہائشی اپنے گھر سے بھاگ گیا، اس نے کہا کہ لوگوں کو مزید تشدد سے بچانے کے لیے سیکورٹی فورسز نے چوکیاں قائم کی ہیں۔ عبوری صدر احمد الشعرا کے حکم کے مطابق گزشتہ تین دنوں میں ہونے والی ہلاکتوں کا جائزہ لینے کے لیے تحقیقاتی کمیٹی کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ زمینی سطح پر بہت کام ہو رہا ہے، نہ صرف قتل میں ملوث افراد کو گرفتار کرنا بلکہ نفرت انگیز پیغامات بھیجنے یا آن لائن فرقہ واریت کو ہوا دینے والے افراد کو بھی نشانہ بنانا۔ حکومت کو اس کی اپنی افواج کے ارکان کی جانب سے ان جرائم کا ارتکاب کرنے پر حیرت ہوئی ہے، اور اب وہ اسے روکنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
معاہدے کی شرائط جس پر اب SDF کے ساتھ اتفاق کیا گیا ہے، اس سے ملک میں سلامتی لانے میں مدد ملے گی، یہ ایک بہت اہم پیش رفت ہے۔ کرد ڈیموکریٹک فورسز کے ساتھ صورتحال ملک میں کافی تشویش کا باعث بن رہی تھی۔ عبوری صدر اتحاد کا مطالبہ کر رہے تھے اور کل ایسا ہی ہوا۔ اس معاہدے کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا جب لوگ واقعی ملک کی حفاظت اور اتحاد کے بارے میں فکر مند تھے، کچھ آوازیں ساحلی علاقوں میں اقلیتوں کے لیے بین الاقوامی تحفظ کا مطالبہ بھی کر رہی تھیں۔ یہ قدم، اور دمشق سے یہ اعلان کہ اب کردوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے ایک فوج ہوگی، ایک اہم پیش رفت ہے۔ یاد رکھیں، بشار الاسد کے دور میں کردوں کو کبھی بھی تحفظات حاصل نہیں تھے، اس لیے یہ واقعی ایک اہم کامیابی ہے۔