🚀 LIMITED-TIME OFFER! 🚀
🔥 "Claim Your Exclusive Bonus Now!" 🔥

👉 CLICK HERE TO UNLOCK YOUR REWARD 👈

معروف شاعر، ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد لاہور میں انتقال کر گئے

معروف شاعر، ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد لاہور میں انتقال کر گئے

Renowned poet, drama writer Amjad Islam Amjad passes away in Lahore

معروف شاعر، ڈرامہ نگار اور نقاد امجد اسلام امجد جمعہ کو لاہور میں انتقال کر گئے۔ وہ 78 سال کے تھے۔

امجد کو اردو ادب میں ان کی خدمات کے لیے کافی پذیرائی ملی۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھیں۔

امجد اسلام امجد کو ان کے ادبی کام پر پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز سمیت متعدد ایوارڈز بھی ملے۔

وزیراعظم شہباز شریف اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے امجد اسلام امجد کے افسوسناک انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اپنے الگ الگ تعزیتی پیغامات میں وزیراعظم اور صدر نے کہا کہ پاکستان ایک عظیم شاعر اور ادیب سے محروم ہو گیا ہے جن کی فن و ادب کے میدان میں گراں قدر خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امجد اسلام امجد نے اردو ادب میں ایک بہت بڑا خلا چھوڑا ہے جسے پر نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے مرحوم کے درجات کی بلندی اور لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعا کی۔ انہوں نے سوگوار خاندان سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا۔

کہاں آکے رکنے تھے راستے ، کہاں موڑ تھا ، اسے بھول جا

وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ ، جو نہیں ملا اسے بھول جا

 

وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں

دلِ بے خبر مری بات سن اسے بھول جا ، اسے بھول جا

 

میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں ، ترِی آس ، تیرے گمان میں

صبا کہ گئی مرے کان میں ، میرے ساتھ آ ، اسے بھول جا

 

کسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم ، ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم

تجھے زندگی نے بھلا دیا ، تو بھی مسکرا ، اسے بھول جا

 

کہیں چاکِ جاں کا رفو نہیں ، کسی آستیں پہ لہو نہیں

کہ شہیدِ راہِ ملال کا نہیں خوں بہا ، اسے بھول جا

 

کیوں اَٹا ہوا ہے غبار میں ، غمِ زندگی کے فشار میں

وہ جو درد تھا ترے بخت میں ، سو وہ ہو گیا ، اسے بھول جا

 

نہ وہ آنکھ ہی تری آنکھ تھی ، نہ وہ خواب ہی ترا خواب تھا

دلِ منتظر تو یہ کس لئے ترا جاگنا ، اسے بھول جا

 

یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا ، اسے دیکھ ، اس پہ یقیں نہ کر

نہیں عکس کوئی بھی مستقل سرِ آئنہ ، اسے بھول جا

 

جو بساطِ جاں ہی الٹ گیا ، وہ جو راستے سے پلٹ گیا

اسے روکنے سے حصول کیا ، اسے مت بلا ، اسے بھول جا

 

تو یہ کس لئے شبِ ہجر کے اسے ہر ستارے میں دیکھنا

وہ فلک کہ جس پہ ملے تھے ہم ، کوئی اور تھا ، اسے بھول جا

 

تجھے چاند بن کے ملا تھا جو ، ترے ساحلوں پہ کھلا تھا جو

وہ تھا اک دریا وصال کا ، سو اتر گیا اسے بھول جا 

#buttons=(Accept !) #days=(7)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !