Google and Apple are warning some visa employees not to leave the US

Google and Apple are warning some visa employees not to leave the US

گوگل (Google) نے امریکی ویزا اسٹاف (US Visa Staff) کو بیرونی سفر سے سختی سے خبردار کر دیا 

مشہور ٹیک کمپنیز گوگل (Google) و ایپل (Apple) نے اپنے ویزا ہولڈرز (Visa Holders) کو بین الاقوامی سفر سے بچنے کی ہدایت جاری کی ہے  یہ اعلان وجہ ہے امریکی امیگریشن نظام میں نئی سخت پالیسیاں، (H-1B Visa) اسٹیمپنگ میں بے مثال تاخیر، اور سفارت خانوں میں ویزا اپائنٹمنٹز (Visa Appointments) کی ان گنت لمبی لائنیں، جس کے باعث ہزاروں کارکن بیرون ملک پھنسنے کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔ 

google advised us visa staff to avoid international travel

گوگل (Google) ویزا اسٹاف کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ بیرون ملک سفر سے گریز کریں  مشہور امریکی ٹیک کمپنی گوگل (Google) نے اپنے امریکی ویزا حامل ملازمین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اگر ممکن ہو تو بیرون (International) سفر نہ کریں، خاص طور پر وہ ملازمین جن کے پاس ایچ-1بی ویزا (H-1B Visa), ایچ-4 ویزا (H-4 Visa), ایف ویزا (F Visa), جے ویزا (J Visa) اور ایم ویزا (M Visa) ہے۔

یہ انتباہ گوگل (Google) اور ایپل (Apple) کی جانب سے جاری مختصر مگر انتہائی اہم میل (Internal Memo) کے ذریعے سامنے آیا، جس میں قانونی فرم بیری ایپل مین اینڈ لیڈن (Berry Appleman & Leiden) نے کہا: "اس وقت بین الاقوامی سفر سے بچیں کیونکہ اگر آپ امریکی سرحد سے باہر جاتے ہیں تو واپس آنے میں غیر متوقع اور طویل عرصے تک تاخیر ہو سکتی ہے۔"

امریکی امیگریشن سختی اور ویزا تاخیر کی وجوہات: امریکی حکومت (U.S. Government) نے امیگریشن (Immigration) نظام میں بڑی تبدیلیاں نافذ کی ہیں، جس کا مقصد سلامتی میں اضافہ، امیگریشن پروسیسنگ (Immigration Processing) کی نگرانی اور ممکنہ خطرات کو کم کرنا بتایا گیا ہے۔ ان تبدیلیوں میں سوشل میڈیا کی جانچ (Social Media Screening) اور زیادہ سخت بیک گراؤنڈ چیکس شامل ہیں، جس کے باعث ویزا اسٹیمپنگ (Visa Stamping) اور اپائنٹمنٹز میں تاخیر میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ 

سفارت خانوں (U.S Embassies) اور قونصل خانوں (U.S Consulates) میں حالیہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ عام ویزا اپوائنٹمنٹوں (Routine Visa Appointments) پر 12 ماہ تک (Up to 12 Months) کا انتظار کرنا پڑ رہا ہے، جس کا اثر اس وقت تک بڑھتا جا رہا ہے جب تک یہ پالیسیاں لاگو ہیں۔


یہ طویل تاخیر امیگریشن کی نئی سخت جانچ (Enhanced Vetting) کا نتیجہ ہے، جس میں گزشتہ پانچ سال تک کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس (Social Media Accounts) کی چھان بین شامل ہے۔ ناقدین (Critics) اسے پرائیویسی (Privacy) کا بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔

ایپل (Apple) کی بھی مماثل ہدایت : صرف گوگل (Google) نہیں، بلکہ دوسری بڑی ٹیک کمپنی ایپل (Apple) نے بھی اسی طرح کی ہدایت اپنے ویزا اسٹاف کو جاری کی ہے۔ فرگو مین (Fragomen) نامی امیگریشن قانونی فرم نے ایپل (Apple) کے ملازمین کو بھی کہا کہ وہ اگر ان کے پاس درست ایچ-1بی اسٹیمپ نہیں ہے تو بین الاقوامی سفر مؤخر یا منسوخ کر دیں۔

ٹرمپ (Trump Administration) کے اقدامات کا اثر: موجودہ امیگریشن سختیاں خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ (Donald Trump) انتظامیہ کے امیگریشن ایجنڈے (Immigration Agenda) کا حصہ ہیں، جس میں نئے قوانین، سخت جانچ، ویزا فیس (Visa Fee) میں اضافہ، اور امیگریشن سسٹم میں اصلاحات شامل ہیں۔ 

اس کے علاوہ نئے قواعد کے مطابق، امیگریشن محکمہ (Department of Homeland Security) اب ممکنہ ویزا درخواست دہندگان کے سوشل میڈیا پروفائل کو پانچ سال تک کے ڈیٹا کے لیے سکرین کرتا ہے، جس کا مقصد سلامتی کو بہتر بنانا بتایا گیا ہے، لیکن اس سے پروسیسنگ وقت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔

ویزا ہولڈرز (Visa Holders) کو ممکنہ نتائج: ٹیک انڈسٹری (Tech Industry) میں ہزاروں غیر ملکی کارکن (Foreign Workers) شامل ہیں، خاص طور پر ایچ-1بی ویزہ (H-1B Visa) پر کام کرنے والے ماہرین، جن پر ان تبدیلیوں کا سب سے زیادہ اثر پڑ رہا ہے۔ اگر کوئی ملازم بیرون ملک جاتا ہے اور واپس امریکہ آنے میں طویل تاخیر کا سامنا کرتا ہے تو یہ اس کی ملازمت یا قانونی حیثیت (Legal Status) کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ 

نتیجتاً، بڑی ٹیک کمپنیز جیسے گوگل (Google) و ایپل (Apple) نے اپنے عملے کو مشورہ دیا ہے کہ وہ غیر ضروری بیرونی سفر (International Travel) سے گریز کریں تاکہ وہ امریکی سرزمین (United States) میں واپس نہ پھنس جائیں، کیونکہ غیر واضح ویزا اسٹیمپنگ حالات اور تاخیر کے باعث واپسی کا وقت غیر متوقع طور پر بڑھ سکتا ہے۔ 


امریکی امیگریشن میں حالیہ سختیاں کمپنیز کے ویزا اسٹاف (Visa Staff) کو سخت فیصلے کرنے پر مجبور کر رہی ہیں، جبکہ ہزاروں کارکن اپنے مستقبل اور ملازمتوں کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ حکومت اور ٹیک کمپنیز دونوں ہی مزید رہنمائی دینے کے لیے تیار ہیں، مگر صورتحال مستقبل قریب میں واضح ہونے کا امکان ہے۔