مرغا عمرو عیار
عمرو عیار اس وقت اپنے
کمرے میں لیٹا کچھ سوچ رہا تھا کہ اچانک کمرے کا دروازہ زور زور سے کھڑکنے لگا اور
عمرو اس اچانک دروازے پر حملے کی آواز سن کر کھڑا ہو گیا اور زنبیل سے سلیمانی
چادر نکال کر اوڑھ لی اور دروازہ کھول کر ابھی سائیڈ پر ہونے ہی لگا تھا کہ اچانک
اس کی بیوی دروازے کو دھکا دے کر اندر داخل ہوئی اور پھر اچانک ٹھٹھک گئی کیونکہ اس کو اندر کسی کے گرنے کی آواز سنائی
دی تھی لیکن کوئی اس کو نظر نہ آرہا تھا اور پھر اندر سے دروازہ بھی بند تھا اس
وجہ سے بھی وہ پریشان ہو کر بھوت بھوت کا شور مچاتی ہوئی باہر کی طرف دوڑ پڑی اور
عمرو عیار دل ہی دل میں ہنسنے لگا کیونکہ اس کی موٹی بیوی کے دوڑنے کی وجہ سے زمین
لرز رہی تھی
عمرو عیار نے چادر اتار
کر زنبیل میں رکھی اور اپنی بیوی کے پیچھے دوڑنے لگا پھر یک دم رک گیا کیونکہ اس کی
بیوی اپنے ملازم کو لے کر اسی طرف آ رہی تھی عمرو عیار ایک طرف چھپ گیا اور
سلیمانی چادر دوبارہ اوڑھ لی جب اس کی بیوی پاس سے گزری تو عمرو عیار نے ٹانگ اڑا
دی اور اس کی بیوی دھم سے زمین بوس ہو گئی اور ہائے ہائے کرنے لگی
عمر
و عیار کو اپنی بیوی پر غصہ اس لیے تھا کہ وہ اپنے کمرے میں لیٹا بڑے بڑے خیالی
محل بنا رہا تھا اور اس کے ذہن میں اس وقت بے شمار دولت کی لالچ اور حرص تھی اور
وہ نت نئی سکیمیں سوچ رہا تھا کہ وہ اپنی دولت میں کیسے اضافہ کرے کہ اس کی بیوی
نے زور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا اور اس کی بیوی ہر روز اس کو بہت مارتی تھی
اور عمرو بیچارا روزانہ اپنی بیوی کی چمڑے کی جوتیاں کھا کھا کر سوکھ گیا تھا اور
اب اس نے پچھلے تمام بدلے لینے کی ٹھان لی تھی
لیکن ابھی تک اس کی بیوی زمین پر بیٹھی ہائے
ہائے کر رہی تھی کہ عمر و عیار نے اپنے ملازم کی ٹانگ پکڑ کر اس کو گھسیٹنا شروع
کر دیا جو کہ اس کی بیوی کو کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا تھا پھر وہ بھی چیخنے چلانے
لگا جبکہ اس کی بیوی ایک بار پھر بھوت بھوت کا شور مچاتی ہوئی باہر نکل گئی اور
عمرو عیار نے اپنے ملازم کو چھوڑ کر باہر کی طرف دوڑ لگا دی ابھی وہ دروازہ کھولنے
لگا تھا کہ اچانک دروازہ کھلا اور چار پہلوان اندر داخل ہوئے کہ ایک کی ٹکر عمر و عیار
سے ہو گئی اور عمرو عیار نیچے گر پڑا لیکن اس نے گرتے ہی اپنی دونوں ٹانگیں پھیلا
دی جس کی وجہ سے دو پہلوان اس کی ٹانگوں سے ٹکرا کر گر گئے
ارے
کمبختو تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو نیچے گر کر شور مچا رہے ہو،،، اٹھو بدبختو
پکڑو بھوت کو۔۔۔ چوتھے پہلوان نے غراتے
ہوئے کہا
جب کہ عمر و عیار بھی اپنی پسلیاں مل چکا تھا کیونکہ
اچانک گرنے کی وجہ سے اس کی پسلیاں بھی کڑکڑانے لگ گئی تھی عمروعیار نے جب اپنی بیوی
کو اندر داخل ہوتے دیکھا تو آگ بگولا ہو گیا کیونکہ اگر وہ ان پہلوانوں کو نہ لے
کر آتی تو وہ نہ نیچے گرتا عمرو عیارنے زنبیل سے تلوار حیدری نکال کر سب سے پہلے والے
پہلوان کی گردن اس طرح ماری کہ اس کی گردن کٹ کر پیچھے کھڑے پہلوان کے جا لگی اور
وہ بھی بھوت بھوت کا شور مچاتے ہوئے باہر کی طرف دوڑنے لگا
جب اس کی بیوی دوڑنے لگی تو
عمرو نے ایک بار پھر ٹانگ اڑا دی اور ایک ساتھ دو دھماکے ہوئے ایک اس کی بیوی کے
گرنے کا اور دوسرا دھماکہ بیوی کی ٹانگ لگ کر عمرو کے گرنے کا کیونکہ گرتے گرتے عمرو
کی بیوی کی ٹانگ بھی عمرو کو لگ گئی اور عمرو خود بھی نہ سنبھل پایااور اس کے ساتھ ہی گر پڑا ، اور اس کا سر زور سے
کرسی سے ٹکرایا اور عمرو کو دن میں ہی تارے نظر آنے لگ گئے
ادھرعمرو عیار کی بیوی
اٹھ کر سردار امیر حمزہ کے خیمے کی طرف دوڑ پڑی جبکہ عمرو وہیں پڑا پڑا اپنی ٹانگ
اور سر سہلاتا رہا آج اپنی زندگی میں پہلی
بار عمرو سلیمانی چادر اوڑھے بھی مار کھا رہا تھا
کیا
ہوا بہن تم کیوں گھبرائی ہوئی ہو۔۔۔ سردار امیر حمزہ نے عمرو کی بیوی کو خیمے کے
اندر داخل ہوتے پوچھا
بب
بھوت۔۔۔ عمرو کی بیوی نے ڈرتے ہوئے کہا لیکن اس کے خوفزدہ ہونے کی وجہ سے الفاظ
اچھی طرح نہیں نکل رہے تھے
یہ پانی پی لو۔۔۔ آرام سے بیٹھو اور پھر بتانا
کہ کیا ہوا ہے۔۔۔سردار امیر حمزہ نے پانی کا گلاس دیتے ہوئے کہا، عمرو عیار کی بیوی
نے گلاس پانی کا بھرا ہوا غٹاغٹ پینا شروع کر دیا
اور اس کے بعد اس نے سردار امیر حمزہ کو ساری
کہانی سنائی، پھر سردار امیر حمزہ خوداس کے ساتھ اس کے گھر چل پڑے جب سردار امیر
حمزہ نے دروازہ کھولا تو اچانک اس کے بوٹ کی ٹوہ عمر و عیار کی چادر سے اڑ گئی جس
کی وجہ سے سردار امیر حمزہ گر گئے لیکن گرنے سے عمرو عیار کے جسم سے سلیمانی چادر
اتر گئی اور سردار امیر حمزہ کو دیکھ کر عمرو عیار کا رنگ اڑ گیا اور سردار امیر
حمزہ بھی اٹھ گئے عمرو عیار کو دیکھا تو
وہ اصل بات سمجھ گئے اور عمر و عیار کو انہوں نے سزا کے طور پر مرغا بنا کر سارے
شہر کا چکر لگوایا جبکہ شہر کے لوگ عمر و عیار کو دیکھ کر بے تہاشہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتے رہے۔
ختم شد