تماشائے حسن اور دو ٹکے

تماشائے حسن اور دو ٹکے

سرخ و سفید رنگت، انتہائی محنت سے تراشے ہوئے نین نقش، خوبصورت جھیل سی چمکدار آنکھیں اور اُن سے ٹپکتی ہوئی معصومیت، دل کو چھو جانے والی چہرے کی نامعلوم مقناطیسی کشش، کمال کا متناسب چہرہ جو ایک حسن کا شاہکار تو ہوسکتا تھا مگر بھکاری نہیں۔ ہاں درست پڑھا آپ نے ان تمام خوبیوں کی مالکن کو میں نے شہر قصور میں ایک مصروف شاہراہ پر کالے برقعے میں لپٹے چہرے پر کالا نقاب اوڑھے نرم و ملائم اور گداز نشیب و فراز والے بدنِ ممنوعہ کو مہنگائی کے اس دور میں ہاتھ جوڑے کھڑے ہو کر مانگتے دیکھا

 

جانے وہ کیا مجبوری تھی کہ جس حسن کے شاہکار کو مایوں بیٹھنا چاہیے تھا وہ بیچ چوراہے پر اپنی کُل جائیدادِ حسن کو لے کر اس بے حس معاشرے میں تماشائے مہنگائی بنے پیسے پیسے کو ترس رہی تھی۔

نہ کوئی معذوری تھی نہ کوئی کمی مگر ایوان میں بیٹھے سنگ دل حکمرانوں کی شاہ خرچیوں اور لاپرواہیوں نے ہر سفید پوش کو محتاج بنارکھا ہے

اس مہنگائی کے بے قابو جن اور خونخوار معاشرے نے انائیں گروی رکھوا دی ہیں، عزتیں سڑکوں پر آ گئی ہیں

 

امیر و حکمران کے آگے ناچنے والی بھی لاکھوں میں بکتی ہے مگر غریب کی عزت ٹکے میں نیلام ہوجاتی ہے ٹکے سے یاد آیا کہ ہمارے ملک کا روپیہ اپنی قدر کھوتے کھوتے بنگلہ دیشی کرنسی اڑھائی ٹکے تک پہنچ گیا ہے گویا ہم اب بحثیت قوم روپیہ اور ڈالر کی زبان میں دو ٹکے کے بھی نہیں رہے

Post a Comment

0 Comments

ebay paid promotion